حال ہی میں جبب بھارت کے شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل انکی شناخت کا مرحلہ سات سال بعد اختتام پذیر ہوگیا، تو اس کے نتائج حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی کیلئے ایک طرح سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ ہوگیا تھا ۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ میں سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ کی 39.9ملین آبادی میں ایک تو محض 19لاکھ چھ ہزار افراد ہی ایسے پائے گئے جو شہریت ثابت نہیں کر پائے۔ دوسرا بتایا گیا کہ ان میں سے11 لاکھ افراد ہندو اور صرف آٹھ لاکھ ہی مسلمان ہیں۔اس خفت کو مٹانے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں پارلیمنٹ سے متنازعہ شہریت ترمیم بل پاس کروایا، جس کے مطابق 13 دسمبر 2014 تک افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھارت آئے غیر مسلم پناہ گزینوں ہندو، سکھ، بودھ، جین ، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے افراد کو بھارتی شہریت دلانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کا فوری اثر آسام میں یہ ہوگا کہ صوبہ میں نیشنل رجسٹریشن آف اسٹیزز یعنی این آر سی کی زد میں جو 11لاکھ غیر مسلم افراد آئے تھے، وہ اب خوبخود شہریت کے حقدار ہوگئے۔صرف مسلمانوں کو ہی اب ٹریبونل اور عدالتوں کے چکر کاٹ کر اپیل دائر کرکے شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ بصورت دیگر ان کو بے ریاست شہری ڈیکلیر کرکے ان کو شہری حقوق ، یعنی ووٹنگ ، سرکاری نوکریوں وغیرہ سے محروم کرکے، ان کوملک سے باہر دھکیلنے کا عمل شروع کیا جائیگا۔ اگر یہ موجودہ قانون واقعی پڑوسی ممالک کی اقلیتوں کو تحفظ دینے کے ارادہ سے ڈرافٹ کیا گیا ہوتا، تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں تھا۔ مگر ایک ملک جو پچھلے 70سالوں سے ریفیوجی پالیسی نہیں بنا رہا ہے، وہ اچانک ریفیوجیوں اور پڑوسی ممالک کی ہراساں اقلیتوں کا محافظ کیسے بن گیا؟جنوبی ایشیا میں اگر ہندو کہیں قابل رحم حالت میں ہیں، تو وہ سری لنکا میں ہندو تامل اقلیت ہے۔ آخر انکو اس قانون کے دائرہ سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ ان سبھی سوالوں کا جواب یہی ہے کہ یہ قانون، پورے ملک میں این آر سی لاگو کرنے کی سمت میں پہلا قدم ہے۔ جس کے مضمرات مسلمانوں کیلئے تشویش ناک ہیں۔ پورے ملک میں این آر سی کی ایکسرسائز 2024ء تک مکمل کی جائیگی۔ اس کی رو سے ملک کے ہر شہری کو اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ اب اگر کوئی غیر مسلم دستاویزات کی عدم موجودگی کے باعث شہریت ثابت نہیں کر پاتا ہے، تو حال ہی میں ترتیب دیئے گئے قانون کی رو سے وہ خودبخود شہریت کا حقدار ہوگا۔ اگر اسکی زد میں مسلمان آجاتا ہے تو وہ بے وطن شہری قرار دیا جائیگا۔ دوسرے لفظوں میں 180ملین مسلم آبادی کی ایک کثیر تعداد کی شہریت پر سوالیہ نشان کھڑے ہوجائیگے۔ ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں یہ قانون آدھی رات کے وقت پاس ہوگیا۔ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدر آباد سے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے ٹویٹ کرکے کہا۔’’ جب آدھی رات کے وقت دنیا سو رہی تھی، بھارت کی آزادی، مساوات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور انصاف کے آدرشوں کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا تھا۔‘‘ اویسی نے اسے قبل پارلیمنٹ میں بحث کے دوران وزیر داخلہ امت شاہ پر تلخ نکتہ چینی کرتے ہوئے ان کا موازنہ ہٹلر سے کیا اور کہا کہ وزیر داخلہ کا نام تاریخ میں ہٹلر کے ساتھ لکھا جائے گا۔ شہریت ثابت کرنے کیلئے پاسپورٹ، ووٹر کارڈ یا نیشنل شناختی کارڈ یعنی اُدھار کی کوئی وقعت نہیں ہے، بلکہ دادا یا نانا کے جائداد کے کاغذات جمع کرنے ہونگے اور پھر ان سے رشتہ ثابت کرنا ہوگا۔ جس گائوں ، دیہات یا محلہ میں آبائو اجداد رہتے تھے، وہاں سے کاغذات لانے ہونگے۔ اگر ان دستاویزات میںاسپلنگ وغیرہ مختلف ہوں، تو بس بے وطن شہری کہلوانے کیلئے تیار رہیں۔ آسام میں تو ایسے افراد حراستی کیمپوں میں ہیں، جن کے نام میں محمد کی اسپلنگ انگریزی میں کہیں ایم ،یو، تو کہیں ایم، او ،ہے۔ بس اسی فرق کی وجہ سے ان کی شہریت مشکوک قرار دی گئی ہے۔خواتین کے معاملے میں شہریت کے ثبوت کے طور پر گائوں پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو تسلیم نہ کئے جانے کا فیصلہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا ۔ تناسب کے اعتبار سے بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی آسام میں ہے، 9اضلاع میں ان کی واضع اکثریت ہے، جو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھڑکتی آرہی ہے۔ حکمران بی جے پی ایک طرح سے بھارت کی مسلم اقلیت سے انتقام لے رہی ہے۔ بھارت کی 543لوک سبھا کی سیٹوں میں سے 125کے قریب ایسی سیٹیں ہیں ، جہاں مسلمان 15فیصد یا اس سے زیادہ ہیں۔ پارلیمانی طریقہ جمہوریت اور امیدواروں کی کثرت کی وجہ سے ، ان سیٹوں پر مسلم ووٹ ا نتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتا تھا۔ ہندو قوم پرستوں کو شکایت ہے کہ 2014 ء سے قبل ان کو اقتدار سے باہر رکھنے میں مسلم ووٹ نے براہ راست کردار ادا کیا ہے۔ 2014ء اور 2019ء میں تو بی جے پی نے ہندو ووٹروں کو خاصے سبر باغ دکھا کر یکجا تو کیا، مگر اقتصادی مندی اور دیگر عوامل جلد ہی ووٹروں کی خاصی تعداد کو ان سے بدظن کرنے والے ہیں۔ اس سے پہلے یہ عمل شروع ہو، اور وہ ایک بار پھر مسلم ووٹروں کے ساتھ مل کر بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کروا کر اسکو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیں، ضروری ہے کہ ان کی کثیر تعداد کو شہریت ثابت کروانے کے نام پر حق رائے دہی سے محروم کرایا جائے۔ جب آسام میں بی جے پی کے دعوئوں کے برعکس محض 19لاکھ افراد ہی شہریت ثابت نہیں کر پائے، تو بی جے پی کے لیڈروں نے بتایاکہ بنگلہ دیشی درانداز ، جن کی شناخت کیلئے پوری ایکسرسائز کی گئی تھی، اس دوران دیگر ریاستوں میں بس گئے ہیں۔ اسلئے آسام کی طرز پر پورے ملک میں غیر ملکی دراندازوں کی شناخت کا کام شروع ہونا چاہئے۔ انتخابات سے قبل بی جے پی کا نعرہ تھا، کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔ اپنی دوسری مدت کے ایک سال سے بھی کم وقفہ میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرنا اور اب ملک بھر میں این آر سی لاگو کرکے مودی نے یہ تو ثابت کردیا کہ ان کے جو بھی انتخابی نعرے تھے وہ محض نمائشی جملے نہیں تھے۔ وہ ایک ایک کرکے ان کو روبہ عمل لا رہے ہیں۔ پاکستان کو سبق سکھانا اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد پر بھارتی ترنگا لہرانا بھی ان کا ایک انتخابی نعرہ تھا۔ اس قانون کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کرتے وقت وزیر داخلہ امیت شاہ نے خاصی دورغ گوئی سے کام لیا۔اپنی تقریر کے دوران شاہ نے یہ تک کہا کہ ’’آپ چاہتے ہیں کہ بھارت کو مسلم پناہ گزینوں کا مرکز بنادیا جائے۔آپ کو معلوم ہے کہ یہاں ہندوؤں کی آبادی گھٹ رہی ہے اور مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔آبادی کے عدم توازن کو دور کرنے کے لئے پڑوسی ملکوں سے ہندوؤں کو یہاں لاکر بسایا جائے گا۔‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کے خلاف ہوئے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان میں 1947میں اقلیتوں کی آبادی 23فیصد تھی، جو 2011میں گھٹ کر 3.7فیصد رہ گئی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں 1947 میں اقلیتوں کی آبادی 22فیصد تھی، جو 2011میں کم ہوکر 7.8فیصد رہ گئی ہے۔ کہاں گئے یہ لوگ۔ یا تو ان کو مار دیا گیا ہے، یا ان لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا ہے یا بھارت بھگا دیئے گئے ہیں۔‘‘ (جاری ہے)