وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کی انتہا پسند حکومت کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان پر حملے کی کوشش کی گئی تو یہ آخری غلطی ہو گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں کور کمانڈرز کانفرنس نے بھی کم و بیش اسی طرح سے بھارت کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی قیادت کے بیانات اشتعال انگیز ہیں اور بھارت نے کسی طرح کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے بھر پور جواب دیا جائے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق غیر ذمہ دارانہ بیانات کے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے‘ کور کمانڈرز کانفرنس میں بھارتی مظالم کا دلیری سے مقابلہ کرنے پر کشمیریوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ مشکلات کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ کشیدگی صرف پاکستان اور بھارت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس کی وجہ سے خطے کے تمام ممالک اپنے شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر پا رہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اسی قدر خوشگوار دیکھنے کی آرزو کی تھی جیسے امریکہ اور کینیڈا کے مابین ہیں۔ کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بہت جلد ختم ہو سکتی ہے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1971ء کی جنگ کے بعد بھارت سے 90ہزار فوجیوں کو رہا کرانے‘ اپنا کچھ علاقہ آزاد کرانے اور مستقبل میں اچھی ہمسائیگی کے تعلقات کی نشوو نما کے لئے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کئے۔اس طرح راجیو گاندھی کے دور میں جب پاکستان پر بھارتی حملے کا خدشہ پیدا ہوا تو جنرل ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت پہنچ گئے اور بھارتی قیادت کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ میں ہی کیوں ایسے واقعات سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ اور سوویت یونین کے سفارت کاروں کے لئے معمول رہے ہیں جب انہوں نے جنگ کے شعلوں کو عین اس وقت بجھا دیا جب وہ ساری دنیا کا امن خاکستر کرنے کو تیار تھے۔ سوویت یونین اور امریکی صفوں میں بٹی ہوئی عالمی برادری کے لئے وہ لمحہ اطمینان کا تھا جب سوویت یونین کا انہدام ہوا اور دنیا میں سیاسی و دفاعی کشمکش کو کچھ سکون میسر آیا۔ سرد جنگ کے اختتام کے بعد مسلسل کشیدگی اور جنگ کے خطرات میں گھرے کئی ممالک میں امن اور استحکام آیا۔ جرمنی کے دونوں حصوں کے مابین کھڑی دیوار گرا دی گئی‘ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان رابطہ کاری میں بہتری آئی۔پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کی سب سے بڑی وجہ تنازع کشمیر ہے۔ آزادی کا اعلان ہوتے ہی بھارت نے اپنے بڑے حجم اور زیادہ طاقت کے زور پر حیدر آباد‘ جونا گڑھ اور کشمیر سمیت کئی ایسی ریاستوں پر غیر قانونی قبضہ کر لیا جو اس کے ساتھ الحاق پر آمادہ نہ تھیں۔ بھارت نے پاکستان کے حلے کے اثاثے قبضے میں لے لئے۔ بھارت میں سرکاری سرپرستی میں ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی گئی جو مسلمانوں کو پاکستان کی طرف جبری ہجرت پر تیار کرتے۔ اعلان آزادی کے بعد دنگا فساد اور قتل و غارت اسی لئے شروع کئے گئے کہ مسلمان گھبرا کر بھارتی علاقوں سے پاکستان منتقل ہو جائیں اور ہندو ان کی املاک پر قبضہ کر لیں۔ بھارت کی ریشہ دوانیاں آزادی کے بعد بھی جاری رہیں۔1948ء میں بھارت نے پاکستان آنے والے دریائوں کا پانی روک کر پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں بھارت نے جو کردار ادا کیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ملکوں کے مابین چار جنگیں اور ہزاروں کی تعداد میں جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم منتخب کے بعد کشیدگی میں اضافہ کئی گنا ہو گیا ہے۔ دو روزپہلے نریندر مودی نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت 11روز میں پاکستان پر قبضہ کر سکتا ہے۔ یہ بیان اس وقت معنی خیز معلوم ہوتا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے چھ ماہ سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے اور بیرونی دنیا کو مقبوضہ کشمیر تک کسی طرح کی رسائی حاصل نہیں۔ ساتھ ہی بھارت کے علاقوں میں مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی پر مشتمل شہریت قانونی پر احتجاج پھیل رہا ہے بھارتی حکومت اور اس کے انتہا پسند کارندے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ مودی کہتے ہیں کہ ان کو گالیاں دی جا رہی ہیں لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق صلب ہو چکے ہیں۔ بھارت کا داخلی انتشار اور بے چینی مودی حکومت کے بھاری مینڈیٹ کے پائے کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بھارت سے کشمیر سمیت تمام تنازعات کا پرامن حل چاہتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی رائے اس معاملے میں بہت واضح ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے متعدد بار بھارت کی جارحیت پر دندان شکن جواب دیا ہے۔ گزشتہ برس فروری میں دو بھارتی طیاروں کی تباہی ایسا ہی سبق تھا جو بھارت کو سکھایا گیا۔ پاکستان روائتی ہتھیار ہی نہیں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاست ہے۔ بھارت کو یہ امر ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ایک سال کے دوران اس کی پیدا کردہ کشیدگی خود اس کی جی ڈی پی کو 8فیصد سے 4.5فیصد پر لے گئی ہے۔ پاکستان دشمنی میں جلتے ہوئے نریندر مودی سوا ارب بھارتیوں کو روٹی‘ علاج‘ گھر‘ تعلیم اور صاف پانی کی سہولیات دینے کی بجائے جنگ کے سامان اکٹھے کر رہے ہیں۔ وہ ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں جو پورے جنوبی ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں۔ کشیدگی اور جنگ پہلے مفید ثابت ہوئی نہ مستقبل میں اس سے کوئی فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ اپنے اور خطے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے بھارت امن اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرے تو پاکستان دو قدم آگے بڑھ کر خیر مقدم کرے گا۔