سمستی پور میں سماجیات کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر دھرمیندرکمار نے جو مختلف یونیورسٹیوںکی خاک چھاننے کے بعد اب اپنے آبائی گائوں واپس آکرکھیتوں کی نگرانی کر رہے تھے، بتایا کہ ایک دن اخبار میں انہوں نے پڑھا کہ ان کے کھیت کے پاس ایک ناکارہ اور زنگ آلود ٹیوب ویل کی مرمت کے لئے حکومت نے رقم خرچ کی ہے۔ جب انہوں نے حق اطلاعات قانون کا استعمال کرکے تفصیلات جاننا چاہی تو معلوم ہوا کہ پچھلے آٹھ برسوں کے دوران متواتر سرکاری فائلوں میں اس ٹیوب ویل کی مرمت پر رقوم خرچ ہوتی رہی ہیں۔ بہارکے انتخابی نتائج کا بھارت کے مجموعی سیاسی نقشہ پراثر انداز ہونا یقینی ہے ۔کرونا وائرس اور لاک ڈاون کے دوران مہاجربہاری مزدوروںکی مشکلات کا ازالہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے جب بی جے پی نے دیکھا کہ اس کا’’ وکاس‘‘ (ترقی)کا نعرہ کام نہیں کر رہا ہے ، تو وہ اپنی سابق روش پر اتر آئی ہے اور کشمیر کی خصوصی کو حثیت ختم کرنے اور رام مندر بنانے کے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کو بھنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ گزشتہ 2015 کے اسمبلی انتخابات میں لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل اور نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹد نے سیکولر گرینڈ الائنس قائم کرکے ماضی کی تلخیاں فراموش کرکے ہاتھ ملا لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ریاست کا انتخابی منظر نامہ اعلیٰ‘ ذاتوں بمقابلہ پسماندہ ذاتوں میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اسی لئے اپنی تمام تر طاقت اور توانائی جھونکنے کے باوجود، بی جے پی کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سیکولر الائنس،نے 245 رکنی ایوان میں 178 نشستیں حاصل کرکے واضح اکثریت حاصل کرلی تھی۔ بی جے پی کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو صرف 58 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ مگر دو سال بعد یعنی 2017 میں وزیراعلیٰ نتیش کمار نے راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس سے ناطہ توڑ کر بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ موجودہ انتخابات وہ بی جے پی کے ساتھ ملکر لڑ رہے ہیں، اسلئے سیاسی منظر نامہ بلکل مختلف ہے۔ حیدرآباد دکن کے رکن پارلیمنٹ اور مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے بھی اس بار دس امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ پچھلے بار انہوں نے چھ امیدوار میدان میں اتار ے تھے۔ وہ بھی ایک اور گرینڈ ڈیموکریٹک سیکولر فرنٹ اتحاد کا حصہ ہیں، جس میں دوسری اہم پارٹی دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بہارکی سیاست میں ذات پات کا غلبہ ہے اور اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیںکرسکتاکہ وہاں کے رائے دہندگان اجتماعی اورانفرادی مسائل سے زیادہ اپنی اپنی ذات (caste) کو ترجیح دیتے ہیں۔جب ایک اعلیٰ ذات بھومی ہار گاوٗں میں معمر سچانند پاٹھک سے میں نے پوچھا تھا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے، تو ان کا جواب تھا کہ’’ ووٹ اور بیٹی اپنی ذات والوں کی ہی دی جاتی ہے۔ ‘‘بہار کی آبادی میں مختلف ذاتوں اور فرقوں کا تناسب کچھ اس طرح ہے : دیگر پسماندہ طبقات (OBC) کا تناسب 51 فی صد (ان میں یادو 14 فی صد ، کرمی 4 فی صد اور کوئری 8 فی صد ) نیزانتہائی پسماندہ طبقات یا EBC کا تناسب 24 فی صد بشمول کشواہا چار فی صد اور تیلی 3.2 فی صد۔ مہا دلت 10 فی صد اور دلت 6 فی صد (جس میں پاسوان،دسدھ چار فی صد ہیں )۔ پیدائشی مراعات یافتہ یعنی اعلیٰ ذات طبقات 15 فی صد ( بھومی ہار 6 فی صد، براہمن 5 فی صد ، راجپوت 3 فی صد ، اور کائستھ ایک فی صد)۔ قبائلی (ایس ٹی) 1.3 فی صد اوردیگر فرقے 1 فی صد ( بشمول عیسائی، سکھ اور جین)۔ گو کہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نیشنل ڈیموکریٹک الائنس یعنی بی جے پی ۔جنتا دل (یونائیٹڈ) کو سبقت حاصل ہے، مگرسیکولر گرینڈ الائنس کی اہم پارٹی راشٹریہ جنتا دل کے محبوس قائد لالو پرساد یادو کے فرزند تیجسوی یادو ، کے جلسوں میں جس طرح کی بھیڑ امنڈ آرہی ہے،اس سے لگتا ہے کہ مقابلہ خاصا سخت ہوگا۔ دوسری طرف اسدالدین اویسی کے جلسوں میں بھی خاصی بھیڑ نظر آرہی ہے۔ بہار کی تاریخ میں 1989میں ایک غریب اور پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد لالو پرساد یادو کا وزیر اعلیٰ بننا ایک سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے۔ جب وہ اقتدار میں آئے، تو بہار او رجھارکھنڈ ایک ہی ریاست تھی، اور اسمبلی کے 324اراکین میں 230اونچی ذاتوں کے زمیندار تھے۔ لالو نے سیاست کو ان کے آہنی پنجے سے آزاد کروانے میں کامیابی توحاصل کی، مگر بدقسمتی سے اس کے بعد ان کے پاس کوئی ویژن نہیں تھا۔بجائے میرٹ کے وہ بھی کانگریس کی طرح خاندانی راج کی طرف گامزن ہوئے۔ اس حد تک جب 1997ء میں مویشیوں کے چارہ گھوٹالہ(جس کہ وجہ سے وہ فی الوقت جیل میں ہیں) کے طشت از بام ہونے سے انکو استعفیٰ دینا پڑا، بجائے زمام اقتدار کسی پارٹی لیڈر کو سونپے کے، انہوں نے اپنی آٹھویں جماعت پاس بیوی رابڑی دیوی کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دوران ایک بار پٹنہ میں انکی رہائش پر صبح سویرے ملاقات کیلئے حاضر ہوا، تو وسیع و عریض لان میں لالو یاد وکی صدارت میں محفل جمی تھی۔ ان کی اہلیہ ، جو وزیرا علیٰ تھی، ان کے کپڑے نکال کر ان کو دے رہی تھی۔ ناشتہ کرتے ہوئے ، وزیرا علیٰ کا پرنسپل سیکرٹری ہاتھ میں کوئی فائل لئے ہوئے، ان کو بریف کرنے کی کوشش کررہا تھا ، تاکہ کسی معاملہ میں ہدایت حاصل کرے، تو لالو اس کو بری طرح جھڑک رہے تھے، کہ وہ عوام سے گفتگو کر رہے ہیں۔ گفتگو کیا تھی، بس لطیفے سنائے جا رہے تھے۔ جہاں آباد ضلع سے یادو ذات کا ایک وفد اپنے علاقے میں اسکول کھلوانے کیلئے فریاد لیکر آیا تھا۔ تو لالو ان کی حوصلہ شکنی کرکے کہہ رہے تھے، ’’تمہاری اولاد تو اسکول مکمل کرے گی نہیں، بھومی ہار کا بچہ ہی پڑھکر ، بابو بن کر تمہارے سینے پر بیٹھے گا۔ اسلئے کوئی اور مطالبہ کرو۔‘‘ مگر اس کے باوجود ان کے اور ان کی اہلیہ کے 13سالہ دور اقتدار میں پچھڑی ذاتیں خاص طور پر ان کی اپنی یادو برادری اعلیٰ تعلیم کی طرف بڑی تعداد میں راغب ہوگئی اور نوکریوں میں بھی انکو وافر مواقع فراہم ہوئے، جو بہار میں قدم قدم پر نظر آتا ہے۔ دربھنگہ کی متھلا یونیورسٹی میں کئی یادو طلبہ اور اساتذہ نے کہا کہ ان کی پڑھائی وغیرہ بس لالو حکومت کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ گو کہ ان کے دور میں ہر قدم کو ذات پات کی عینک سے دیکھنے کو بڑھاوا تو ملا، مگر انہوں نے فرقہ واریت پر لگام کس دی۔ 1989ء میں بھاگلپور میں ہوئے ہندو مسلم فسادات کے بعد اس صوبہ میں کوئی اور بڑا فساد نہیں ہوا۔ کاش لالو یادو اپنے سوشلسٹ ہونے کا بھرم رکھ کر ، خاندانی راج کے بجائے، میرٹ پر اپنی پارٹی کی بنیاد رکھتے، بد عنوانی پر لگام لگا کر نظم و نسق پر کچھ توجہ دیکر ، تعمیر و ترقی پر بھی دھیان مرکوز رکھتے،تو نہ صرف بہار بلکہ بھارت کی بھی قسمت ان کی لیڈرشپ میں بدل سکتی تھی اور فرقہ واریت کے زہر کو تریاق بھی میسر ہوتا۔(ختم شد)