مقبوضہ کشمیر میں شب خون مارنے کے بعد جنگی جنون میں مبتلا بھارت خطے کے امن کو داؤ پر لگانے کے درپے ہے۔ حال ہی میں بھارت نے راجستھان میں 28 نومبرسے 4 دسمبر تک فوجی مشقیں کرنے کا فیصلہ کیا جن میں 40 ہزار سے زائد فوجی حصہ لیں گے۔ ان فوجی مشقوں میں بھارتی فوج کا اسٹرائیک کور حصہ لے گا۔ مشقوں میں حریف کے علاقے میں آپریشن کی صلاحیتوں کو جانچا جائے گا اور فضائی اور زمینی جنگی صلاحیتوں کو پرکھا جائے گا۔ 2015 ء کے بعد یہ سب سے بڑی بھارتی جنگی مشقیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج نے حال ہی میں اسرائیل سے حاصل کردہ اسپائک اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل بھی لائن آف کنٹرول (ایل او سی)پر نصب کرنے کا اعلان کیا ہے۔سپائک میزائل ہندوستانی فوج نے ہنگامی طور پر نام نہاد بالاکوٹ حملے کے بعد حاصل کیے تھے۔ اسپائک میزائل کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ تعینات کیے جائیں گے۔ فوج نے اپنی ہنگامی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 240 میزائل اور 12 لانچراسرائیل سے خریدے ہیں ان میزائلوں کو بنیادی طور پر اینٹی ٹینک کارروائیوں ،سخت پناہ گاہوں یا بنکروں کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ ان کو پاکستان کے خلاف استعمال کیے جانے کا ار ادہ ہے۔ امسال اکتوبر میں بھارت کی جانب سے ایل او سی پر جورا، شاہ کوٹ،نوسیری سیکٹر میں سیز فائر خلاف ورزیوں میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ۔ بھارت نے شہری آبادی پر 122اور155 ایم ایم کے بھاری گولے داغے۔ بھارت بڑھتی ہوئی کشیدگی ، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جارحانہ فوجی اقدام ، کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور بھارتی وزیر اعظم و وزراء اور آرمی چیف کی پاکستان کودھمکیاں اور اب پاک بھارت سرحد پر بھارت کی تینوں مسلح افواج کی مشقیں ۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ کیا یہ خطے کے امن کو تباہ کرنے والی بات نہیں؟ بھارت کی ایٹمی جنگ کی دھمکیوں کے تناظر میں نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں خاص طور پر اس لئے بھی کہ بھارت نے ان مشقوں کا مقصد پاکستان کی سرحد کے اندر ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ قرار دیا ہے۔یہ مشقیں بھارتی فوج کے سپیشل ڈویژن کے زیر اہتمام کرائی جا رہی ہیں۔ اسی سال فروری میں پاک فضائیہ کے ہاتھوں اپنے دو طیاروں کی تباہی اور ایک بھارتی ہوا باز کے پکڑے جانے کی ہزیمت کے بعد بھارتی جنون پاگل پن کی حدوں کو چھونے لگا۔ بھارت نے فرانس سے رافیل لڑاکا طیارے اور روس سے دفاعی میزائل سسٹم کی خریداری کا عمل تیز کرنے کے علاوہ خود بھی 290 کلو میٹر دور تک مار کرنے والے براہموس سپر سانک میزائل کا تجربہ کیا۔بھارت کے ان جارحانہ اقدامات کے پیچھے دراصل حکمران انتہا پسند جماعت بی جے پی اور اس کی اتحادی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کی ذہنی پسماندگی، مسلمانوں سے عداوت اور اپنے بڑے پن کا خناس ہے جو بھارتی سرکار کو ٹک کر نہیں بیٹھنے دیتا۔ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ اس صورتحال کا ادراک کرے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے دنیا کو تباہی سے بچانے کیلئے فوری اقدامات کرے۔پاکستانی قوم کو بھی چاہئے کہ متوقع خطرات سے نمٹنے کے کیلئے اپنی صفوں میں مکمل اتحاد قائم کرے اور نفاق کی قوتوں سے خبردار رہے۔ امریکہ میں موجود بھارتی قونصلر سندیپ چکرورتی کے متنازعہ بیان کے حوالے سے جس میں کشمیری ہندو اور بھارتی شہریوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کشمیر میں ہندو آبادی کی واپسی کے لیے اسرائیل کے طریقے پر آبادکاری کرے گا، وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کشمیر میں چار ماہ سے جاری کرفیو کے باعث کشمیریوں کو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا سامنا ہے لیکن طاقتور ممالک اپنے تجارتی مفاد کی وجہ سے خاموش ہیں۔ یہ بھارتی حکومت کے آر آر ایس نظریئے کی فسطائی ذہنیت کا عکاس ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کی طرز پر یہودیاں بستیاں بسانے کے بھارتی منصوبے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ بھارتی جنگی جنون کے سلسلے میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ روسو بورون ایکسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل الیگزینڈر میکھیو کے مطابق روس بھارت کو 2015ء تک 5 ایس 400 میزائل سسٹم فراہم کرے گا۔ بھارت نے روسی ایس 400 دفاعی میزائل نظام خریدنے کے لیے آٹھ سو ملین ڈالر کی پیشگی ادائیگی کردی ہے۔ گو کہ اس معاہدے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ امریکا نے بھارت کو خبردار کیا کہ روسی دفاعی نظام خریدنے کی صورت میں اسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تاہم بھارت کا موقف تھا کہ ملکی دفاعی نظام مضبوط بنانے اور خاص طور پر چین سے لاحق خطروں سے نمٹنے کے لیے مودی حکومت ہرصورت یہ نظام خریدے گی۔بھارت دنیا بھر میں روسی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔ 2015 ء میں مودی حکومت نے 'میک اِن انڈیا‘ منصوبے کے تحت روس کے ساتھ مل کر بھارت میں ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق معاہدے کیا تھا تاہم ابھی تک اس منصوبے پر مکمل عمل نہیں ہو پایا۔ ادھر پاکستان نے بھارت کی ممکنہ جارحیت سے نمٹنے کیلئے دفاعی اقدامات کر لئے ہیں۔ ہماری زمینی، فضائی اور سمندری سرحدیں مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں بھارت کو منہ توڑ جواب ملے گا۔ پاک فضائیہ جنگی معیار کے مطابق الرٹ ہے۔ ایئرڈیفنس سسٹم چوکس ہے۔ بھارت کی فوجی نقل و حمل کے مطابق سرحد پر فوجی دستوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔پاک بحریہ نے پوری سمندری حدود اور اس کے ساتھ متصل بین الاقوامی پانیوں پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔ پاک فضائیہ عام حالات میں سات ایئر بیس استعمال کرتی ہے مگر جنگی صورتحال کے پیش نظر تیس سے زائد ایئر بیس استعمال میں لائے جائیں گے۔بھارت کے جنگی جنون کے باوجود پاکستان نے جنگ سے گریز حکمت عملی اپنائی ہے۔ جس کا اعتراف عالمی میڈیا بھی کر رہا ہے۔ گو کہ پاکستان کی طرف سے جنگ کا بھرپور جواب دینے کی تیاری کی وجہ سے بھارت اب دفاعی پوزیشن پر چلا گیا ہے مگر ہندوبنیا چالاک، دھوکے باز اور فریبی ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں اپنی سرحدوں کے دفاع سے کسی لمحہ بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ اس موذی دشمن کے مقابلے کیلئے اپنے گھوڑے تیار رکھنے ہوں گے۔