بھارت کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہوگی کہ جب اس نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کیا تو پاکستان سیاسی خلفشاراور انتشار میں مبتلا ہے۔ افواج پاکستان سرحد پر دشمن کے آگے بند باندھے کھڑی ہیں‘ آئے روز ہمارے جوان شہید ہورہے ہیں جبکہ قوم کے نام نہاد رہنما اقتدار کے گھنائونے کھیل میں مصروف ہیں۔ بلاشبہ بھارت اور پاکستان جنگ کے دہانے پر بیٹھے ہیں۔کشمیر کی سرحد پر کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ‘ گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔بھارتی جارحیت کے نتیجہ میںدرجنوںکشمیری شہری اور فوجی شہید ہوچکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپیں زیادہ تر بندو ق اور چھوٹے ہتھیاروں کی فائرنگ تک محدود رہا کرتی تھیں۔ اب نوبت بھاری ہتھیاروں اور توپخانے کے استعمال تک جا پہنچی ہے۔ صورتحال دن بدن بگڑ رہی ہے جس میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ تین ماہ ہوگئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ایسی صورتحال ہے‘ لاکھوں لوگ گھروں میں محصور ہیں‘ہزاروں حراست میں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کشمیر کے تنازع پر بھرپور سفارتی مہم چلائی لیکن عالمی طاقتیں بھارت پر کوئی دباو ڈالنے کو تیار نہیں۔ زبانی کلامی اخلاقی حمایت کے سوا عالمی برادری مقبوضہ کشمیر کی عوام کی عملی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ ہندو انتہاپسند نریندرا مودی اور اسکے ساتھی پاکستان سے بات چیت کی بجائے طاقت کے زور پہ تنازعات حل کرنا چاہتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت ہر اعتبار سے پاکستان سے بہت بڑا ملک ہے اسلیے بآسانی پاکستان کو شکست دے سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصو صی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا حصّہ قرار دینے کے بعد بھارتی حکمرانوں نے یہ رٹ لگانا شروع کردی ہے کہ آزاد کشمیر بھی بھارتی علاقہ ہے جسے وہ جلد پاکستان سے چھین لیں گے۔بھارتی حکومت نے کچھ روز پہلے اپنے ملک کا ایک نیا نقشہ جاری کیا جس میں مقبوضہ جموںکشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی بھا رتی حدود میں دکھایا گیا ۔بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے گزشتہ ماہ امریکہ میں ایک تھنک ٹینک ہیری ٹیج فاونڈیشن سے خطاب میں کہا کہ بھارت کی حدود اور اقتدار اعلی کا تعین اس کے نقشوں سے ہوتا ہے اوران نقشوں میںپُورا کشمیر بھارت میں شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک دن آئے گا جب ان کا ملک پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر ریاست کے علاقوں کا فزیکل کنٹرول حاصل کرلے گا۔ ماحول میں مزید گرمی پیدا کرنے کو بھارتی فوج کے سربراہ بپن راو ت ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ پاکستان نے کشمیر پر غیرقانونی قبضہ کیا ہوا ہے اور اس پرپاکستانی ریاست کا نہیں بلکہ دہشت گردوں کا کنٹرول ہے۔ ان سے پہلے بھارت کے ایک جونئیر وزیر جتندرا پرشادنے بھی یہ بیان دیا تھا کہ وہ دن دُور نہیں جب پاکستان کے زیرانتظام کشمیرپر بھی بھارتی جھنڈا لہرائے گا۔ آزاد کشمیر کواپنے قبضہ میں لینے کی باتیں کرکے بھارتی حکمران اپنے عوام کو ایک ممکنہ جنگ کے لیے تیار کررہے ہیں۔ بھارتی عزائم کا کچھ اندازہ توفروری میں بالاکوٹ میں فضائی حملہ اور بیس اکتوبرکو آزاد کشمیر میں توپخانہ کے حملہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ دونوں حملوں کا پاکستان نے سخت جواب دیا لیکن یہ واضح ہے کہ بھارت لائن آف کنٹرول کو عبور کرتے رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور کسی بھی وقت اچانک بڑا حملہ کرسکتا ہے۔ اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر حال ہی میں بھارت نے مغرب میں پاکستانی سرحد اور مشرق میں چین کی سرحد کے ساتھ جنگی مشقیں کی ہیں۔ پاکستانی سرحد پر مشقوں میں بھارت نے نئے حاصل کردہ اسلحے کی پریکٹس کی جن میں فضائی اور زمینی دونوں قسم کے ہتھیار شامل تھے۔ ان ہتھیاروں میں خودکار 155 ایم ایم توپخانہ اورجدید پناکا نامی ملٹی بیرل راکٹ لانچر شامل تھے۔ لداخ میں بھارت نے چین کی سرحد سے صرف نوّے کلومیٹر دور جنگی مشقیں کیں جن میں نئی جنگی حکمت عملی کے تحت آپس میں جڑے ہوئے تیز رفتار حربی دستوں کی رفتار‘ ان کے مواصلاتی نظام اور آپس میں رابطہ کی صلاحیت کو چیک کرنا تھا۔ بھارتی ائیر فورس نے بھی براہموس سپر سانک کروز میزائل کے نئے تجربے کیے ہیں۔ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ بھارت سمندر کے راستے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ اسی لیے جواب میں پاکستان نے بھی بحری جہازوں سے داغے جانے والے میزائیل ٹیسٹ کیے۔ چند روز پہلے سونمیانی میں اپنی زبردست فضائی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ پاکستانی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ مسلسل لائن آف کنٹرول کے دورے کررہے ہیں‘ سپاہ کی تیاریوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ابھی تک تو یہ پیٹرن رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج پر جیسے ہی کوئی فدائی حملہ ہوتا تھا بھارت اس کا الزام پاکستان پر لگاکر کوئی جوابی کارروائی کرتا تھا جیسے پلواما کے بعد بالاکوٹ پر حملہ کیا گیا، لیکن اب دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ خود سے آزاد کشمیر یا گلگت‘ بلتستان کے کسی علاقہ پر حملہ کرکے کچھ علاقہ پر قبضہ کرلے جیسے 1980ء کی دہائی میں اس نے سیاچن گلیشئیر پر قبضہ کیا تھا۔ اس کا ایک مقصد یہ ہے کہ بھارت جب پاکستان سے مذاکرات کرے تو پاکستان کمزور پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے بھارت کی مسلط کردہ شرائط پر امن سمجھوتہ کرلے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کواپنے فوجی اخراجات بڑھانے پر مجبور کردیا جائے تاکہ اس کی معیشت دبائو میں آجائے۔ بھارتی حکمرانوں کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ محدود جنگ کرکے پاکستان کو کشمیر کے تنازع پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا جاسکتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کی اقتصادی حالت اتنی کمزور ہے کہ اگر اسے ایک محدودروایتی جنگ لڑنی پڑ جائے تو اسکی معیشت مکمل طور پر بیٹھ جائے گی کیونکہ پاکستان زیادہ دیر تک جنگی اخراجات برداشت نہیں کرپائے گا۔ مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی دبائوکے باعث کسی قسم کے ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کرسکتا۔ ان حالات میں بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو صرف فوجی تیاریوں کی نہیں بلکہ قوم کے اتحاد و یکجہتی اور اقتصادی ترقی کی بھی ضرورت ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معیشت پروان چڑھ سکے گی ا ورریاستی ادارے ملکی دفاع پر یکسو ہوسکیں گے۔ ایسے موقع پر جو لوگ ملک کے اندر انتشار پھیلا رہے ہیں وہ جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر کس کی خدمت کررہے ہیں اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔