کسی بینک کو فنڈز کرنٹ اکاؤنٹس، سیونگ اکاؤنٹس اور فکسڈ ڈپازٹس کی شکل میں حاصل ہوتے ہیں، اور وہ اْن (فنڈز کی لاگت) پر سود کی ادائیگی کرتا ہے۔ ڈپازٹس کا نمایاں حصہ ایسے طریقوں کے ذریعے محفوظ رکھنا پڑتا ہے جو آر بی آئی کی شرائط کی تکمیل کرتے ہیں۔ بقیہ رقم ہی بینک قرض دے سکتا اور سود کما سکتا (سود والی آمدنی) ہے۔ ’سود والی آمدنی‘ اور ’فنڈز کی لاگت‘ کے درمیان فرق ’نٹ انٹرسٹ مارجن‘ (NIM) اور بینک کا نفع ہوتا ہے۔ چونکہ ’این آئی ایم ‘ ہمیشہ مثبت رہے گا، اس لئے کسی بینک کو عام طور پر منافع میں چلنا چاہئے۔ قرض دہندہ بینک کو قرضدار کے کھاتہ پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت رہتی ہے… آیا سود باقاعدگی سے ادا کیا جارہا ہے؟ آیا اصل رقم کی اقساط مطلوبہ تواریخ کو واپس ادا کی جارہی ہیں؟ کیا بیلنس شیٹ اور نفع اور نقصان کا کھاتہ کی تنقیح کی گئی اور کیا وہ قرضدار کی مالی حالت کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں؟ بینکوں پر نگرانی کئی سطحوں پر ہوتی ہے۔ اول، بینک کی فنانس کمیٹی۔ دوم، بورڈ آف ڈائریکٹرز۔ سوم، اِنٹرنل آڈیٹر۔ چہارم، اکسٹرنل کنکرنٹ آڈیٹر۔ پنجم، آر بی آئی منظورہ اسٹاچوٹری آڈیٹری۔ ششم، شیئرہولڈرز کا سالانہ عمومی اجلاس (اے جی ایم)۔ ہفتم، ڈپارٹمنٹ آف بینکنگ آپریشنس اینڈ ڈیولپمنٹ ، آر بی آئی۔ آخر میں عقابی نگاہ والا تجزیہ نگار۔ مذکورہ بالا تمام کے علاوہ پوشیدہ مارکیٹ ہوتی ہے جو درجِ فہرست کمپنی رہنے والے بینک کی صورت میں اسے جزا یا سزا دے گی۔ وزارت فنانس میں ڈپارٹمنٹ آف فنانشیل سرویسیس (DFS) بھی ہوتا ہے جس سے تمام پبلک سیکٹر بینکس کے بشمول مصرحہ جسامت والے ہر شیڈولڈ کمرشیل بینک پر نظر رکھنے کی توقع ہوتی ہے۔ یس (YES) بینک ایسا معلوم ہوتا ہے نگرانی کی تمام سطحوں پر بچ گیا اور ہر سہ ماہی مدت پر منافع کا اعلان کرتا رہا۔ اس نے پہلی بار اپنے سہ ماہی نقصان کا اعلان جنوری۔ مارچ 2019ء میں کیا تھا۔ تب بھی ’ڈی بی او ڈی‘ یا ’ڈی ایف ایس‘ میں فکرمندی و تشویش کی لہر نہ اٹھی۔ اپریل 2014ء سے یس بینک دیوانہ وار قرض دیتا رہا ہے۔ اس بینک کے بیلنس شیٹس سے حاصل شدہ سرکاری اعداد و شمار یوں ہیں: پلیز! مارچ 2014ء سے مارچ 2019ء تک قرض کی اجرائی میں اْچھال کو نوٹ کیجئے: لون بْک میں سالانہ 35 فیصد کی شرح پر اضافہ ہوا! پلیز! یہ بھی نوٹ کیجئے کہ نوٹ بندی کے فوری بعد کے دو سال 2016-17ئ￿ اور-18 2017ء میں کس طرح اضافہ ہوا۔ بعض واجبی سوالات اْٹھتے ہیں: کس کمیٹی یا کس نے مارچ 2014ء کے بعد نئے قرض عطا کئے؟ کیا آر بی آئی اور حکومت واقف نہیں رہے کہ یس بینک لگاتار قرض دیتا جارہا ہے؟ کیا آر بی آئی یا حکومت میں سے کسی نے ہر سال کے اختتام پر بینک کے بیالیس شیٹ کو پڑھا؟ کیوں کچھ نہیں بدلا جب آر بی آئی نے جنوری 2019ء میں سی ای او کو بدل کر نیا سی ای او مقرر کیا؟ کیوں (تب بھی) کچھ نہیں بدلا جب آر بی آئی کے ایک سابق ڈپٹی گورنر کو مئی 2019ء میں یس بینک کے بورڈ میں مقرر کیا گیا؟ کیوں اْس وقت ارباب مجاز چوکنا نہیں ہوئے۔ جب یس بینک نے بالکلیہ پہلی مرتبہ سہ ماہی نقصان کی جنوری۔ مارچ 2019ء میں اطلاع دی؟ جوابدہ کون ہے؟ ان سوالات کے جوابات آر بی آئی یا حکومت میں سے کسی نے نہیں دیئے جبکہ وہ 7 مارچ 2020ء کو کئے گئے۔ بظاہر حکومت کی خواہش تو یہی ہے کہ یس بینک کا معاملہ عوام کے ذہن سے غائب ہوجائے گا۔ سوشل میڈیا کی مرہون منت ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پرنٹ اور ٹی وی میڈیا کیلئے اس غلط معاملے کی اطلاع دیتے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ سی بی آئی اور ای ڈی کا یس بینک میں اور اندرون DBOD افراد پر آر بی آئی کی طرف سے جوابدہی طے کئے جانے سے قبل اس معاملے میں کود پڑنا مجھے مناسب معلوم نہیں ہوا ہے۔ اب، مجھے اندیشہ ہے کہ ’تحقیقات‘ ہونے تک جوابدہی طے نہیں کی جائے گی۔ مخصوص مقاصد کے ساتھ افشاء اور مزے دار چھوٹی چھوٹی باتیں میڈیا کی جگہ لیتی رہیں گی اور جوابدہی کو مستقبل میں کہیں دور تک دھکیل دیا جائے گا۔ عوام اور پارلیمنٹ کو ضرور مطالبہ کرنا چاہئے کہ قرض لینے والوں (خاص طور پر بڑے قرض نادہندگان) کے نام شائع کئے جائیں اور اْن افراد یا کمیٹیوں سے وضاحت طلب کی جائے جنھوں نے قرضے منظور کئے۔ علاوہ ازیں، ہمیں مطالبہ کرنا چاہئے کہ ڈی بی او ڈی اور ڈی ایف ایس میں نگرانی کی راست ذمہ داری رکھنے والوں کی شناخت کریں اور ان سے وضاحت طلب کی جائے۔ مجھے شبہ ہے کہ ہم نہ صرف غفلت سے ہوئی لغزشوں بلکہ قابل مواخذہ لاپروائی کا بھی پتہ چلا پائیں گے۔ آر بی آئی اور حکومت یقینا کوئی بچاؤ منصوبہ پر عمل کیلئے تیار ہیں جسے صرف عجیب ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ 12 مارچ کو معلنہ پلان کے مطابق ایس بی آئی دیگر کے ساتھ مل کر 7,250 کروڑ روپئے کا سرمایہ مشغول کرتے ہوئے یس بینک کے ترکیب ِ نو والے سرمایہ میں 49 فیصدی حصص حاصل کرے گا، جو 10 روپئے فی حصص سے کمتر قیمت پر نہ ہوں گے، حالانکہ بینک کی خالص قدر شاید ’زیرو‘ ہے اور شیئرز بیکار ہیں! خراب کے بعد اچھی رقم کو ضائع کرنے سے قبل واجبی متبادلات کھوجے جانے چاہئیں۔ Bank YES کا معاملہ ختم نہیں ہوا ہے۔(بشکریہ سیاست بھارت )