مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے آج تک 68 روز ہو چکے ہیں ، کشمیری عوام مسلسل جبر و تشدد کے زیر سایہ جی رہے ہیں۔ اس دوران کشمیری عوام پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے کرفیو توڑ کر باہر بھی نکلے۔ جن پر قابض فورسز کی طرف سے گولیوں ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارتی عوام نے بھی مودی اقدامات کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ کرفیو اور مواصلاتی پابندیوںکے باعث لوگوں کو خوراک ، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ کشمیریوں کو اپنے بچوں کی فکر ہے جنہیں فوجیوں نے دوران شب چھاپوں کے دوران اغواکرلیا ہے۔ ایک اور ظلم جو بھارتی فوج کی طرف روا رکھا جا رہا ہے کہ کشمیری پولیس میں مسلمان اہلکاروں سے اسلحہ واپس لے لیا گیا ہے جس کے بعد فوج اور پولیس کے اہلکاروں کے درمیان لڑائی کے کم سے کم تین واقعات رونماہو چکے ہیںجن میں دونوں فورسز کے اہلکار زخمی ہوئے۔کشمیر پولیس کے تیس افسروں کا کہنا ہے کہ قابض بھارتی انتظامیہ نے انہیں سائیڈ لائن کر دیا ہے اور ان سے ہتھیار بھی واپس لے لئے ہیں۔ نہ تو انکے لوگ اور نہ ہی اعلیٰ حکام ان پراعتماد کرتے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے رہنما اکلیش یادیو نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائدکرنے پر بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جو کچھ کشمیر میں ہوا ہے وہ اتر پردیش کے عوام کے ساتھ بھی دوہرایاجاسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار نے سفاکیت اور بے حسی کی انتہا کرتے ہوئے گزشتہ 67 دنوں میں ہونے والے مظاہروں کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹس جاری کرنے سے انکار کردیا تاکہ کشمیر میں ہونے والے قتل عام کے ثبوت دنیا کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ کشمیر کی خطرناک صورتحال پر بھارتی سیاست دانوں اور صحافیوں سمیت 284 افراد کی دستخط شدہ درخواست میں وزیر اعظم مودی اور صدر کووند کے نام مطالبے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے جموں کشمیر خطے میں نام نہاد حالات ناقابل قبول ہیں اور حکومت کو حال ہی میں کیرالہ کی ہائی کورٹ کے ذریعہ اعلان کردہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کنکشن کو دوبارہ قائم کرنا ہوگا۔جمہوری وجوہات کی بناء پر ، ہم اس صورتحال کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ درخواست میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اس خطے کو دو اتحاد کے علاقے میں تقسیم کرنے کا فیصلہ مقامی حکام سے مشورہ کیے بغیر لیا گیا تھا۔ دوسری طرف بھارت کے 780 سے زائد ممتاز سائنس دانوں، محققین، دانشوروں اور ماہرین تعلیم نے مودی حکومت سے مقبوضہ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن اور مواصلاتی بندشیں فوری ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مواصلاتی لاک ڈاؤن سے کشمیری تعلیمی اداروں کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور جموں و کشمیر سے باہر تعلیم حاصل کرنے والے کشمیری طالبعلم اپنے پیاروں کی خیریت جاننے سے محروم ہیں۔ کشمیر میں جاری پابندیوں سے لوگوں کو بنیادی ضروریات اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بھارتی حکومت کشمیر میں جاری مواصلاتی پابندیاں اور لاک ڈاؤن فوری ختم کرے۔اس سے قبل کئی بھارتی اداکار بھی مودی سرکار پر مقبوضہ کشمیر میں جاری پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورت حال سے بھارتی معیشت پر بھی برے اثرات پڑے ہیں اور مودی سرکار کے پالیسی تھنک ٹینک کے مطابق بھارت کو جس اقتصادی سست روی کا سامنا ہے اس کی مثال پچھلے ستر سال میں نہیں ملتی۔بھارتی حکومت کے پالیسی تھنک ٹینک نیشنل انسٹی ٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا کے وائس چیئرمین راجیو کمار کا کہنا ہے کہ پورا مالیاتی شعبہ خراب صورت حال سے دو چار ہے اور کوئی بھی کسی پر اعتماد نہیں کر رہا۔دوسری جانب امریکا کے آزاد مالیاتی ادارے جیفریز کے ایکویٹی اسٹریٹجیز شعبے کے گلوبل ہیڈ اور معروف تجزیہ کار کرس ووڈ نے بھی موجودہ سیکیورٹی صورت حال کے پیش نظر بھارت کی اقتصادی صورتحال مزید خراب ہونے کی پیش گوئی کر دی۔کرس ووڈ نے اپنے نیوز لیٹر گریڈ اینڈ فیئر میں انہوں نے بھارت کے ایسیٹ ایلوکیشن پورٹ فولیو میں ایک فیصد کی کمی کی ہے جو اب 16 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد پر آ گئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال نے بھی بھارتی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔بھارت کی خراب اقتصادی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی قومی فضائی کمپنی ائیر انڈیا تقریباً 7 ماہ سے فیول کی مد میں اپنے واجبات ادا نہیں کر سکی اور واجب الادا رقم ساڑھے 4 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔اس صورت حال میں ائیر انڈیا کو فیول فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اے 6 ائیر پورٹس پر جیٹ فیول کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔بھارتی ویب سائٹ کے مطابق مجموعی طور پر اس وقت ائیر انڈیا پر 58 ہزار کروڑ روپے کا قرضہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھارت کے اندر اور باہر سے احتجاج پر بھی مودی حکومت خاموش ہے۔ اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس وقت جب کشمیر کا چپہ چپہ اس کے خلاف بغاوت کی علامت بن چکا ہے اور کشمیری بندوقوں کے سائے میں بھی بھارت سے نفرت کا اظہار کرتے نظرآ رہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی آواز بنا جائے، دنیا کو جھنجوڑا جائے کہ وہ آنکھیں کھولے اور نوشتہ دیوار پڑھے۔ آج اگر مظلوم اور نہتے کشمیریوں کی آواز کو نہ سنا گیا، انسانیت حرکت میں نہ آئی اور کشمیریوں کی نسل کشی کے عمل کو جاری رکھا گیا تو کشمیر کے اندر سے پیدا ہونے والا ردعمل کوئی اور رخ اختیار کر سکتا ہے جس کی ذمہ داری کا یقین ابھی سے ہو جانا چاہیئے۔