تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہواکہ جب کسی انڈین آرمی چیف نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔جنرل نراوانے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے والے بھارتی فوج کے پہلے آرمی چیف بن گئے ہیں۔ وہ8دسمبر ایک ہفتے کے سرکاری دورے کے پہلے پڑائو میں متحدہ عرب امارات پہنچے جہاں انہوں نے اماراتی بری فوج کے کمانڈر اور اسٹاف میجر جنرل صالح محمد صالح الامری سے ملاقات کی ہے اور باہمی دلچسپی اور دفاعی تعاون کے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔قبل ازیں جنرل نراوانے کو متحدہ عرب امارات کی لینڈ فورس کے ہیڈکوارٹر میں گارڈ آف آنردیا گیا جب کہ شہدا کی یادگارپرپھولوں کی چادر بھی چڑھائی۔یہاں سے بھارتی آرمی چیف جنرل ناروانے10دسمبر کو سعودی عرب پہنچے جوچاردنوں پر محیط تھا۔ انہوں نے سعودی عرب کی فوجی اور سیاسی قیادت کے علاوہ نیشنل ڈیفنس کالج سے بھی خطاب کیا ہے جو تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔سعودی عرب کا نیشنل ڈیفنس کالج وہی ادارہ ہے جہاں متعدد مرتبہ پاکستان کے ملٹری حکام خطاب کر چکے ہیں۔ مودی حکومت کااس دورے پرجوبیان سامنے آیا اس میں کہاگیاکہ انڈین آرمی چیف کے دورے کے نتیجے میں بھارت او ر سعودی عرب ایک دوسرے کے مزید قریب آگئے ہیں ۔بھارتی حکمران اس دورے کوتاریخی قراردے رہے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا جب خطے میں ایک طرف اسرائیل کے حوالے سے سیاسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں بھارت کاسعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ دفاعی اعتبارسے تعلقات استوارکرنا مسلمانان عالم بالخصوص پاکستان کے لیے بھی یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارتی آرمی چیف کے حالیہ دورے سے سعودی عرب اور بھارت کے مابین نہ صرف فوجی تعاون بڑھے گا بلکہ سعودی فوجیوں کو تربیت کیلئے بھارت بھیجا جائے گا اور بھارتی فوجی بھی سعودیہ میں فوجی تربیت حاصل کریں گے جبکہ یہ امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقوں کا بھی آغاز کریں۔اس دورے کے بعد بھارت اورسعودی عرب کے مابین جہاں فوجی تعاون بڑھے گا ان میں سے ایک یہ ہے کہ سعودی فوجی افسران کی تربیت سازی کیلئے انڈیا بھیجا جائے اور وہاں سے کچھ انڈین فوجی سعودی عرب میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ٹریننگ کریں۔ اب سعودی عرب جن کیڈٹس کو پاکستان حلال کھانے کیلئے بھیج رہاتھااب انہیں بھارت بھیجاجائے گا۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ وہ خلیجی ممالک میں پاکستان کا اثر و رسوخ ختم کرکے اپنی جگہ بنائے جو پاکستان کیلئے یقینا کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔ پاکستان او ر سعودی عرب کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران معاشی اور دفاعی تعلقات کافی قریبی رہے ہیں اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز مقامات مقدسہ کے علاوہ سعودی شاہی خاندان کی حفاظت پر بھی مامور ہیں اس کے علاوہ سعودی عرب یمن کے حوثی قبائل کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے اس کیلئے بنائے گئے ’’عالمی ملٹری الائنس ‘‘کی سربراہی بھی ا فوج پاکستان کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے جو اب بھی سعودی عرب میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اس کے باوجود بھارتی آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب دنیائے اسلام کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بالخصوص انتہائی غیر متوقع اور باعث حیرت بنا ۔ مبصرین کاکہناہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری اور غلط فہمیوں نے اس وقت جنم لیا جب 2019ء کو ترکی کے صدر طیب اردوان، ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان کوالالمپور میں اسلامی ممالک کے سربراہان کا اجلاس بلانے پر اتفاق ہوا جس پر سعودی عرب کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ اسی طرح یواے ای نے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں پہلی بار بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کیا جس کے ردعمل میں پاکستان نے او آئی سی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی اجلاس طلب نہ کرنے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا جس سے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی۔ ترکی ،ایران اور چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی سعودی عرب کی ناگواری کا باعث بنے۔ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے اورکشمیریوں کی حمایت بند کرنے کا بھی دبائوہے جوپاکستان کے لئے نا ممکن ہے ۔بھارتی آرمی چیف کے خلیج کے دورے کو انہیں حقائق کی روشنی اور اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ انڈین آرمی چیف کے اس دورے کو خطے کے میڈیا نے بھی خبروں کی زینت بنایا ہے۔ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا چین، امریکہ اور جاپان کے بعد سعودی عرب انڈیا کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا، سعودی عرب سے سب سے زیادہ تیل درآمد کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں نریندر مودی حکومت نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے پر بھی توجہ دی ہے۔خلیجی ممالک میں انڈیا کے 85لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ صرف سعودی عرب میں ہی 27لاکھ سے زیادہ انڈین کام کرتے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کی 30فیصد آبادی انڈین ہے جبکہ خبر رساں ادارے مِڈل ایسٹ آئی نے جنرل نراونے کے دورے کو خاصی اہمیت دی ہے۔ امریکہ ٹرمپ کی قیادت میں مڈل ایسٹ میں اسرائیل کے ذریعے سے ایک بہت بڑاکھیل کھیل رہا ہے اورخلیجی ریاستوں سے جوکچھ کہاجارہاہے جس طرح کاحکم انہیں مل جاتاہے تووہ بسروچشم قبول کرتی ہیں۔یہ امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے اس لیے اسرائیل اور انڈیا ان ممالک میں اپنے قدم جما رہے ہیں۔ اکتوبر 2019کو سعودی عرب کے دورے کے دوران وزیر اعظم مودی نے عرب نیوز کو دیے گیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 2016میں پہلی بار میں سعودی عرب آیاتو اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔مجھے یقین ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔