بھارت کی طرف سے پاکستان کی سمندری حدود میں آبدوز کے ذریعے دراندازی کا واقعہ خطے کی سلامتی کو لاحق نئے خطرے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اب تک ایل او سی پر فائرنگ اور لڑاکا طیاروں سے سرحدی خلاف ورزی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ پاکستان کی بحری افواج نے اپنی حدود میں بھارتی آبدوز کی موجودگی کا علم ہونے پر اگر تحمل سے کام نہ لیا ہوتا تو لڑاکا طیارے کی طرح بھارتی آبدوز بھی تباہ ہو چکی ہوتی۔ ایسے میں یہ اطلاعات صورت حال کو مزید تشویشناک بنا رہی ہیں کہ بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ایسا ہوا تو پھر پاکستان نے اب تک جس صبر کا مظاہرہ کیا ہے اس کا دامن چھوڑ کر جواب دینا لازم ہو جائے گا۔ بی جے پی انتہا پسند بھارت کا نمائندہ چہرہ ہے۔ بھارت میں انتہا پسندی ہمیشہ سے موجود تھی۔ تحریک آزادی کے دوران یکجہتی کا تاثر پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں‘ مسیحیوں اور دلتوں کو جس طرح استعمال کیا گیا اس پر آج بھی لوگ پچھتا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا حالیہ بیان اسی احساس زیاں کی علامت ہے جس میں انہوں نے کہا کہ قائداعظم کی جانب سے پاکستان کے قیام کا فیصلہ درست تھا۔ تاریخ جس طرح تحریک آزادی کے دوران کانگرسی منافقت کو بے نقاب کرتی آئی ہے اسی طرح آج کی حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں غیر ہندو اقلیتوں کے ساتھ ساتھ نچلی ذات کے ہندو بھی محفوظ نہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بھارتی سیاستدان نے وزارت اعلیٰ نہ ملنے کی وجہ دلت ذات سے تعلق ہونا بتایا تھا۔ نریندر مودی وزیراعظم بنے تو انہوں نے بھارت کو ترقی اور خوشحالی کے خواب دکھائے۔ یہ خواب سچ ہوسکتے تھے اگر وہ اپنی پالیسیوں کا رخ خطے میں قیام امن سے جوڑتے۔ مودی حکومت کے دور میں خاص طور پر مسلمانوں پر انتہا پسندوں کے حملے بڑھے‘ بھارت کی فلمی صنعت جو عمومی طور پر شدت پسندانہ سوچ سے فاصلہ رکھتی رہی ہے وہاں سرمایہ کاری کر کے پاکستان دشمنی پر مبنی فلمیں بنائی گئیں۔ کھیل کبھی امن کا گہوارہ ہوتے تھے۔ بی جے پی نے کھیلوں کے عالمی میدانوں کو اپنی انتہا پسندی کا اکھاڑہ بنا دیا۔ اقتدار نے ہندو توا کے نظریئے کو سفاک بنانے میں مدد دی۔ یہ سفاکی بھارت کی مختلف ریاستوں اور مقبوضہ کشمیر میں دکھائی دیتی ہے۔ بی جے پی کے اقتدار کا ایک ہی مطلب ہے کہ بھارت میں انتہا پسندوں کو دہشت گردی کرنے کی مکمل آزادی ہے اور بھارت کے ہمسایہ ممالک اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ پاکستان میں بدامنی پھیلا کراپنے مقاصد حاصل کرنا بھارت کی حکمت عملی رہی ہے۔ کئی عشروں تک کراچی کے معاملات میں بھارتی مداخلت کی وجہ سے مشکلات آئیں۔ افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں سے ایسے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے رہے جن کو متحدہ اور امریکہ کو ایسے ثبوت فراہم کر رکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کررہا ہے۔ کلبھوشن جادیو کی گرفتاری اس حوالے سے ثبوت کا درجہ رکھتی ہے کہ ایک حاضر سروس نیوی افسر کس لیے ایسے پاسپورٹ پر پاکستان میں موجود تھا جس میں اس کا مذہب اور نام تبدیل تھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے وہ بیانات ریکارڈ پر ہیں جن میں انہوں نے 1971ء میں پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک ہونے کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے بھارت بلوچستان میں حالات خراب کرے گا۔ جس طرح بھارت حریت پسند تنظیموں کو عالمی اجلاسوں میں دہشت گرد قرار دلانے کی سعی کر رہا ہے ضروری ہے کہ پاکستان اور اس کے اتحادی ممالک عالمی برادری کو آگاہ کریں کہ بھارتی سماج نے ریاست کو دہشت گرد بنا دیا ہے۔ بھارت کی انتہا پسند تنظیموں کو مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے افراد پر حملہ کرنے پر دہشت گرد قرار دلایا جا سکتا ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ قبل ازیں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان رابطے کرانے کے پس پردہ یہی نکتہ نظر کام کر رہا تھا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔ بھارت جانتا ہے کہ اس نے کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کر رکھا ہے اور اگر کشمیریوں کو حق رائے دہی ملے تو وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایت کریں گے۔ عالمی برادری چونکہ موجودہ کشیدگی کے دوران دونوں ملکوں کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے اس لیے اسے بخوبی علم ہے کہ پاکستان ہر طرح کی سازش کا مقابلہ کرنے کی شکست رکھنے کے باوجود خطے میں امن کی خاطر صبر سے کام لے رہا ہے۔ پلوامہ حملے کے اسباب سے دنیا واقف ہے اس لیے بھارتی پروپیگنڈا سے کوئی فرق نہیں پڑ سکا۔ حتیٰ کہ بھارت نے سلامتی کونسل میں پلوامہ حملے کی مذمتی قرارداد جمع کراتے ہوئے پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی تو اراکین نے پاکستان کا نام شامل کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کے سیاسی و عسکری ردعمل نے جنگ بھڑکنے نہیں دی۔ آبدوز سے دراندازی پاکستان کو اشتعال دلانے کی تازہ کوشش ہے۔ پاکستان کو ایسے واقعات سلامتی کونسل کے علم میں لانے چاہئیں اور دنیا کو بھارتی دہشت گردی سے آگاہ کرنا چاہیے۔ بھارت پرامن کشمیریوں پر ظلم کر کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے۔ آبدوز کو دیکھنے کے باوجود جانے دینا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ابھی عالمی برادری کی جانب سے مایوس نہیں ہوا۔ حالات تاحال اطمینان بخش نہیں۔ مسلح افواج اور شہریوں کو چوکس رہنا ہوگا تاکہ بزدل دشمن کی کارروائی کا بروقت جواب دیا جا سکے۔