امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر تنازع کشمیر کے حل کی خاطر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کی پیشکش کے بعد بھارتی افواج نے کنٹرول لائن پر کلسٹر بموں سے حملے شروع کر دیے ہیں۔ جن میں دو افراد شہید اور 11زخمی ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی یہ وضاحت اپنی جگہ کہ ثالثی کی پیشکش کو پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی خواہش کے طور پر دیکھا جائے مگر ایک سپر پاور کے طور پر امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ عالمی امن کیلئے خطرہ سمجھے جانے والے اس تنازع کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں معاونت کرے۔ صدر ٹرمپ کی پیشکش کے جواب میں بھارتی ردعمل خاصا مایوس کن ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی ابھی تک اس معاملے پر چپ سادھے ہوئے ہیں کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے ثالثی کی درخواست کی تھی یا نہیں۔ بھارت کا سفارتی ریکارڈ دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ نریندر مودی نے کوئی چال چلی ہو گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لئے ثالثی کا مقصد اس تنازع کو بھارتی خواہشات کے مطابق طے کرنا ہو۔ بھارت صدر ٹرمپ کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ اس طرح سے حل کرنے کا خواہاں ہو سکتا ہے جس سے علاقائی سطح پر بھارت کی برتری اور طاقت کا تاثر برقرار رہے۔ تنازع کشمیر کے معاملے پر کشمیری یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اقوام متحدہ اور اس کی طاقتور سکیورٹی کونسل دنیا میں امن اور انصاف قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ بہتر برس سے کشمیری باشندے دنیا کو باور کرا رہے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔ کشمیری باشندوں کی واضح اکثریت بھارتی آئین کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے۔ کشمیری عوام نے ہزاروں جانیں آزادی کی خاطر قربان کی ہیں اور ان کی قربانیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بھارت اہل کشمیر کے جائز قانونی حق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ کشمیر کے باشندوں کو سکیورٹی فورسز کے ذریعے محکوم بنایا گیا ہے۔ کشمیری باشندے بھارت کے تمام ہتھکنڈوں اور مظالم پر خاموش نہیں بیٹھے۔ انہوں نے بہت ہمت اور بہادری سے گرفتاریوں‘ شہادتوں اور تشدد کا سامنا کیا ہے۔ کشمیریوں کو دبانے کے لئے بھارت نے اب تک ایسے کئی ہتھکنڈے استعمال کئے ہیں جن کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا رہا۔ ممنوعہ آتش گیر مادے کے ذریعے بھارتی افواج نے کشمیریوں کے گھروں‘ دکانوں اور باغات کو جلایا۔ محدود سطح پر ایٹمی مواد کے استعمال کی رپورٹس بھی سامنے آئیں۔ بھارت نے بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ یہ بھارت ہی ہے جس نے پیلٹ گن کا استعمال کر کے درجنوں لوگوں کو نابینا کر دیا۔ اب کلسٹر بم کا شہری آبادی پر استعمال بتاتا ہے کہ بھارت کشمیرکو ایسا علاقہ سمجھ رہا ہے جو کسی صورت اس کا حصہ نہیں رہے گا۔ بھارت نے مقبوضہ وادی میں سیاحت کی غرض سے آئے افراد اور امرناتھ یاترا کے لئے آنے والے ہندو یاتریوں سے کہا ہے کہ وہ وادی سے نکل جائیں۔ چند روز قبل بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید فوجی دستے تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کے لئے فوج اور ایئر فورس کو چوکس کرنے کا مطلب کیا ہے؟ یہ معاملہ بھارتی آئین کی شق 35اے کی حدود سے متعلق نہیں۔ بھارت نے کشمیر میں ہر طرح کی پروازیں معطل کر دی ہیں۔ احکامات پر مشتمل سرکلرز جلد جلد جاری ہو رہے ہیں۔یوں نظر آتا ہے کہ کوئی بڑا بحران ہے۔بھارت کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی بھاری مینڈیٹ سے جیت کے بعد سے اس امر کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بھارتی آئین کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نئے فوجی دستوں کی تعیناتی سے بعض حلقوں کو اندشہ ہے کہ ان دستوں کو ممکنہ عوامی ردعمل کوقابو میں رکھنے کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے 28ہزار نئے فوجیوں کی کشمیر میں تعیناتی سے کشمیری باشندوں کے لئے مشکلات میں اضافہ ہو گا تاہم اس سے بھارت کا جمہوری چہرہ بے نقاب ہو گا۔ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں مسلح افواج کے ہاتھوں کشمیریوں کی جان‘ مال اور آبرو کو غیر محفوظ قرار دے چکی ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن کی گزشتہ دو رپورٹیں کشمیریوں کو مظلوم ثابت کرتی ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ تنازع کشمیر کو دو طرفہ بات چیت سے طے کرنے کی بات کی۔ پاکستان نے جب دو طرفہ بات چیت کا آغازکرنے کی کوشش کی تو بھارت نے ایسی کوششوں کو ناکام بنانے میں دلچسپی لی۔ بھارت کا دو طرفہ مذاکرات سے فرار اور تیسرے فریق کی ثالثی کو قبول نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے جغرافیائی‘ معاشی اورآبادی کے بڑے حجم کا فائدہ اٹھا کر پاکستان سے بات چیت کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنا چاہتا ہے۔ اس صورتحال میں مذاکرات سے فرار کا مطلب جنگ کے سوا کیا ہو گا۔ امریکہ جنوبی ایشیا کو پرامن دیکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے امریکی حکام پر واضح کر دیا ہے کہ اس کا افغانستان سے انخلا اس وقت تک خطے میں پائیدار امن کی شکل میں نہیں ڈھل سکتا جب تک تنازع کشمیر ‘ کشمیری باشندوں کی خواہشات کے مطابق حل نہ ہو۔ بھارت کے پاس وہ تمام مواقع موجود ہیں جنکی مدد سے وہ کشمیری باشندوں کو اپنا حامی بنا سکتا تھا۔ بہتر سال میں اگر بھارت ایسا نہیں کر سکا تو اس کا مطلب ہے کہ اہل کشمیر اس کی غلامی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورت حال پر اقوام متحدہ کو خط لکھنے کا فیصلہ درست ہے۔ عالمی برادری کو یہ ضرور بتانے کی ضرورت ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی افواج کے زیر استعمال رہنے والے کلسٹربم جب بھارت کشمیریوں پر برسائے گا تو اس کا ردعمل خطے کو کس طرح کی آگ میں دھکیل سکتا ہے۔