ایک زہرآلود انتخابی موسم کے بعد،جب مسلمان ووٹرز ہر ایک کے لیے اُس گھوڑے کی طرح تھا،جس پر چابک برسائے جاتے ہیں،وزیرِ اعظم اپنی فتح کی فراخدلانہ تکمیل کررہے تھے،وہاں سب لوگ ایک متاثرکن نعرے میں پنہاں بدنمائی کو محسوس کررہے تھے،وہ نعرہ یہ تھا کہ ’’سب کے ساتھ،سب کی ترقی اور سب کے ساتھ‘‘تاہم مسلمانوں نے اس نعرے کو اتنا پُریقین تصورکیا کہ کچھ مسلمانوں نے اپنے نوزائیدہ بچوں کا نام نریندرا رکھااور مسلمان لیڈروں نے وزیرِ اعظم کی جانب سے اقلیتوں پر اس اعتمادکو خوش آمدید کہا۔ زیادہ تر مسلمان اپنی بے طاقتی کا ادراک رکھتے ہیں ،اس لیے وہ اپنے مستقبل کے خوف سے زندگی بسرکرتے ہیں۔گذشتہ کئی برس کا بلاوجہ اوربے بنیاد ظلم، مارپیٹ، اینٹی رومیو سکوائڈ (Anti-Romeo Squads) واضح رہے کہ2019ء کے انتخابات میں بی جے پی نے اپنے ایجنڈے میںایک ایسے سکوائڈ کی تشکیل کا وعدہ کیا تھا ،جو خواتین کی حفاظت کرے گا۔یہ پولیس کے دستے کالجز کے سامنے تعینات ہوں گے۔مگر یہ ایک متنازعہ حیثیت کا حامل ایجنڈا تھا)گھر واپسی(یہ اصطلاح بھارت میں اکیسویں صدی میں ایجاد کردہ مجازی معنوں میں مستعمل ہے جو نام نہاد طور پرتبدیلی مذہب کی کوششوں اور ان کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے۔ بھارت میں کئی ہندو تنظیمیں گھر واپسی کے نعرے کو عام کرنے میں لگی ہیں، ان میں وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی)، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، بجرنگ دل اور دیگر متعدد تنظیمیں شامل ہیں۔ اس مقصد کی انجام دہی کے لیے الگ سے ایک چندہ اسکیم شروع کی گئی ہے، جسے ہندو دھرم رکشا فنڈ کا نام دیا گیا ہے، جسے وی ایچ پی چلاتی ہے۔ یہ چندے کاڈبہ کئی ہوٹلوں اور دکانوں میں کاؤنٹروں کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے، جس میں اس مسئلے اور مقصد سے اتفاق کرنے والے ہندو گاہک حسب مرضی نوٹوں کا چندہ جمع کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائد نے اپنی ایک انتخابی ریلی میں یہ دعویٰ کیا کہ یہ مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک میں دیگر مذاہب کے حلقہ بگوش بننے کے سلسلے کو مکمل طور ممنوع نہ قرار دیا جائے)گائے کے گوشت کی نگرانی اورنفرت پر مبنی بیان بازی جیسے گھمبیرمسائل پریک جہتی کے پُرکشش نعروں کے ذریعہ قابو نہیں پایاجاسکتا۔اگر آج مہاتما گاندھی زندہ ہوتے،وہ یہاں کے سیاست دانوں کو بھائی چارے اور عدم تشدد کے فلسفے کی یاددلاتے۔ یہ چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ پرنٹ میڈیا نے راجستھان ہائی کورٹ کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے ان پانچ مسلمانوں ، جن میں بنیادی طور پر کشمیریوں کو 1996ء کے ساملیتی دھماکوں سے متعلق تمام الزامات سے بری کردیا گیا تھا ، کا ذکر کیا۔(22 مئی 1996 ء کو راجستھان کے داوسہ کے گاؤں ساملیتی کے قریب بس میں بم دھماکا ہوا۔اس دھماکے کے بارے میں دائر چارج شیٹ میں کہا گیاکہ ذمہ دار افراد جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ تھے)ان پانچ افراد نے پانچ سال جیل میں گزارے،قید کے دوران وہ خوف میں مبتلا نہ پائے گئے ،نہ ہی اُنہیں اپنے گرفتار ہونے پر کوئی شکایت تھی،اس کی وجہ یہ تھی کہ اس طرح کی گرفتاریاں معمول کا حصہ اور ناانصافی چلن بن چکی تھی۔ان پانچ قیدیوں نے مختلف جیلوں میں گزارے گئے لمحوںسے حاصل ہونے والے اپنے تجربات کے بار ے میںساتھی قیدیوں کو بتایا کہ ہم پر خالی کاغذ پر دستخط لیے جاتے رہے ،وحشت انگیز طریقے سے قیدیوں سے نمٹا جاتااور ہمارے اعصاب کا امتحان لیاجاتارہا۔. یہاں تک کہ بدترین جیل کی حالت میں زندگی گزارنے والے ان معاشرتی واقعات میں بھی ، مسلمانوں کو مسلمان ہونے کا نشانہ بنایا گیا۔ مجھے حیرت کا سامنا کرنا پڑا کہ ہماری جیلیں آج ہندوستان کی ایک ایسی دُنیا بن چکی ہے جس میں شہریوں کے لیے(NRC) ایک غیر تحریری قومی رجسٹر موجود ہیں( واضح رہے کہ آسام کے شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کا حتمی مسودہ 30 جولائی ، 2018 کو شائع ہوا تھا۔ حتمی فہرست میں تقریبا 40 لاکھ افراد کے نام خارج کردیئے گئے تھے۔ تین کروڑ تیس لاکھ لوگوں میں سے جنہوں نے اپنی درخواستیں پُر کی تھیں ، ان میں سے صرف دوکروڑ نوے لاکھ نے مسودے کی فہرست میں اپنے نام پائے) یہ پانچوں افراد قید سے آزادی پا چکے ہیں ، لیکن جیلوں میں ایسے متعدد مسلمان ہیں جو مبینہ دہشت گردی کے الزام میں زیر حراست ہیں۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے 2012ء کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اگرچہ مہاراشٹرا کی آبادی کا 10.6 فیصد مسلمان ہیں ، لیکن وہ جیل کی آبادی کا 30 فیصد سے زیادہ ہیں۔ یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے تعصب کی وجہ سے ٹاڈا اور ایم سی او سی ایکٹ کے تحت بھی متعدد گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ یہ معلومات بہت عام ہیںکہ دہشت گردی کے ایک واقعے کے نتیجے میں ، بہت سارے مسلمانوں کو گرفتار کرکے قیدی بنالیا گیا۔مسلمانوںکے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو دور کرنے کے بجائے حکومت نے آئین میں ایسی ترامیم متعارف کر وائی ہیں کہ بے گناہ مسلمانوں کی زندگیوں کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔اگرچہ بھارتی آئین سیکولر ہے ، لیکن ریاست اور مذہب کو الگ کرنے والی لائن دھندلا چکی ہے۔ ہندوتوا کے واضح طور پر مسلم مخالف تعصب کے ساتھ اب ریاستی سماجی پالیسی کے لیے نظریاتی نقائص کی فراہمی ہوتی ہے۔ حکومت کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو ملک کے باقی حصوں تک بڑھانے کے منصوبے پرنااہلی سامنے آئی ہے۔ این آرسی مساوات کے بنیادی اصولوں کو پامال کرتا ہے۔ این آرسی کا مقصد اقلیتوں کو ملک بدر کرنا ہے ۔ اس ساری مشق کا مقصد واضح طور پر غیر دستاویزی مسلمانوں کو ہراساں کرنا ہے اور لامحالہ ان سب لوگوں کو بھی سزا دینا ہے، جو بھارتی ہیں لیکن ان کے پاس شہریت کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔مذہب پر مبنی لوگوں کو ’’غیر شہری‘‘قرار دینے کی یہ مشق ، تاریخ میں جمہوریت کی سب سے زیادہ ناجائز ریاست کے زیر اہتمام کاموں میں سے ایک قرار پائے گی۔ملک کے ایک اہم سماجی سائنس دان نے 2019ء میں بی جے پی کی جیت، ہندتواکے پھیلائو کو قراردیاتھا۔ افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ گاندھی کا ملک ،اس سیارے کا سب سے زیادہ نفرت اور تشدد کا حامل ملک بن چکا ہے۔ ریاست آج اپنے شہریوں سے تنازعات کے حل کے لیے وحشیانہ طاقت کا استعمال کرتی پائی جاتی ہے۔ ریاست اور مقتدر قوتیں یہاں ناگزیر سچائی کو جھٹلاتی چلی آئی ہیں ،وہ ناگزیر سچائی یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی تقدیر اس ملک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔یہاں کے مسلمان اور ریاست یا تو کمزور ہو کر ایک ساتھ گریں گے یا ایک دوسرے کو اپنی طاقت بنا کر اُبھریںگے۔ نوٹ:کالم نگار ،سابق بیوروکریٹ اور ایک سیاسی جماعت کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ (بہ شکریہ ؛انڈین ایکسپریس،ترجمہ :احمد اعجاز)