یہ کیا کہ حال دل زار اسے سنانے کو میں اپنے ساتھ رلاتا ہوں اک زمانے کو جو اس کی یاد نہ آئے تو جی ٹھہر جائے ہوا تو چاہیے بجھتا دیا جلانے کو خیر یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ اگر ہوا دیا بجھاتی ہے تو اس کے جلنے میں بھی وہی مددگار ہوتی ہے ،ہوا مگر اتنی ہی درست ہے جس میں دیا جلتا رہے وگرنہ لو کو سنبھالنا ممکن نہ رہے گا۔ فراز نے بھی تو کہا تھا اگرچہ زور ہوائوں نے ڈال رکھا ہے مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے ایک چراغ کی مثال ہی کیا۔ غبارے میں بھی حد سے زیادہ ہوا بھر جائے تو انجام معلوم ۔ویسے تو کہتے ہیں ہوا تو ہر موسم کی بھی بری ہوتی ہے۔ جوانی کی ہوا بھی بڑھاپے کو خراب کرتی ہے اب تو خیر بہار ہے کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ یہ کتنے یادوں کے در کھولتی ہے: بہار بن کے مجھے چھو گیا زمانہ بھی گل خیال کھلے گا کہ ہے بہانہ بھی مارچ میں بہار مارچ کرتے ہوئے گرمی کی طرف جا رہی ہے۔ دھوپ میں حدت بڑھ رہی ہے اور سائے مزہ دینے لگے ہیں بہار میں سب سے زیادہ پیاری اور قیمتی شے صبح ہے کہ باد بہار ہی جسم کو چھوتی ہے تو جیسے اندر پھول کھل اٹھتے ہیں۔ لطیف اور خوشگوار احساس فضا میں ہے اور اس پر پرندوں کی چہچہاہٹ ایسے لگتا ہے نئے لش گرین پیڑوں نے سحر طاری کر دیا ہے باغ میں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیڑوں نے شور مچا رکھا ہے ۔ ظاہر ہمارے تو عقیدے کو یہ بات مضبوط کرتی ہے بہار ۔یہ مظاہر فطرت ہمیں کھینچتے ہیں۔ عبادت میں مشغول نظر آتے ہیں: اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے وہ بھی میری ہی طرح محو دعا لگتا ہے عمران خاں آج کل مشکل میں ہیں اور ان کی وجہ سے عوام بھی مشکل میں ہیں مگر میرا دل نہیں کہتا کہ سیاست کی طرف جائوں کہ بعض اوقات بعض چیزیں کثرت استعمال سے بے معنی لگنے لگتی ہیں یا وہ روٹین بن جاتی ہیں یوں ان کی انفرادی اور امتیازی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاست اب بالکل ہی افسانوی سی ہو چکی ہے۔افسانہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انشا یا اختراع ہوتا ہے۔ اس میں کہانی نہیں ہوتی اور افسانے ہی کو کہانی سمجھنا پڑتا ہے۔ افسانے کے کردار کبھی بھی حقیقی نہیں ہوتے۔ دوسری طرف حقیقی اور جیتے جاگتے کردار کہانی بنتے ہیں۔ اسی باعث تو مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم افسانے یا سیاست کو سچ سمجھ بیٹھتے‘ توقعات باندھ لیتے ہیں اور اپنی ہی خوش گمانی کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اگر کوئی انگریزی لفظ خود بخود میری اردو تحریر میں جگہ بناتا ہے تو میں اسے آزادی فراہم کر دیتا ہوں کہ ہماری پیاری اردو زبان میں بہت گنجائش ہے اس کا دامن بہت وسیع اور کشادہ ہے۔ یہ تو تھا نقطہ معترضہ۔ میں صرف آپ ہی کو ہوا خواہی کا مشورہ نہیں دے رہا میں خود بھی جلو پارک آیا ہوں۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ خاندان کے نوجوانوں نے منصوبہ بندی کی اور جاکر جلو پارک میں پڑائو کیا۔ ہم پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اچھی اچھی سیرگاہیں دستیاب ہیں یہ تو ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے سیاحت کے وزیر کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ ایک اچھی سیر گاہ کا نام بتا دے۔ دیکھیے میں پھر سیاست کی طرف جا رہا ہوں میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ ضرور ایک اتوار وہاں گزاریں۔ مبشیر اقبال صدیقی‘مدثر اقبال صدیقی اور مزمل مفتی نے ہمیں مدعو کیا۔ طیب صدیقی اور عمران مفتی بھی پیش پیش تھے۔ تمام کرداروں کا تذکرہ یقینا ممکن بھی نہیں۔ بس یوں ایسی پکنک کا فائدہ یہ ہے کہ خاندان کے سب لوگ دوسرے خاندانوں سے مل لیتے ہیں۔ یہ نہایت اچھا تجربہ ہے چھوٹے موٹے گلے شکوے بھی دور ہو جاتے ہیں‘ ایک دوسرے کا حال بھی معلوم ہو جاتا ہے: بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں بہت اچھا لگتا ہے کہ وہاں گرین گرائونڈ میں آپ ٹینس بال سے کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ ہم نے کرکٹ کھیلی اور خوب لطف اٹھایا۔ آپ اپنی سنجیدگی کو ذرا سی دیر کو جھٹک دیں اور نوجوانوں کے ساتھ کھیل میں حصہ لیں۔ وہاں اتنے پیرو جواں تھے کہ پوری دو ٹیمیں بن گئیں۔ مگر مشرف اقبال صدیقی نے کمال یہ کیا کہ پڑھے لکھے ایک طرف کر دیے اور روزانہ کرکٹ کھیلنے والے نوجوان ایک طرف۔ دوسرا ہاتھ یہ کیا کہ پڑھے لکھوں کے ساتھ جو دو تین اچھے کھلاڑی تھے انہیں کھانا لینے بھیج دیا۔کون جیتا کون ہارا یہ کہانی اتنی اہم نہیں۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کچھ وقت اپنے ساتھ گزاریں اور کچھ وقت ہرے بھرے اشجار کو آنکھ بھر کر دیکھیں۔ ایک ہی شجر پر کتنے مختلف سبز رنگ کے شیڈز نظر آئیں گے۔ پھر پھول اور پرندے سبحان اللہ۔ اللہ کی صناعی: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم زمین کو جنت بنانے کی بجائے اس کا تقدس تباہ کر رہے ہیں جن لوگوں نے قوم کی رہنمائی کرنا تھی اور قائد و اقبال کے وارث ثابت ہونا تھا وہ کہیں سرکس والے لگ رہے ہیں اور کہیں ریچھ نچانے والے۔ ان سیاستدانوں کے لچھن دیکھ کر ۔ اب دیکھیے کہ پارلیمنٹ سے باہر ہونے والی لڑائی میں جہاں بدتہذیبی کی حد سے گزرتے ہوئے مریم اورنگزیب پر بھی ہاتھ اٹھایا گیا وہاں مریم اورنگزیب بھی مریم کی بجائے اورنگ زیب زیادہ نظر آئی۔پھر اس کے بعد مریم نواز نے تو بات اور آگے بڑھا دی کہ ایک تھپڑ کے بدلے میں دس تھپڑ مارے جائیں گے۔ بات زبانی کلامی ہی رہتی تو بہتر تھا۔ مجھے تو عوامی ردعمل کا خوف ہے کہ اب بھی سب پارلیمنٹرین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بات کرتے ہیں عوام کی کسی کو بھی کچھ فکر نہیں۔خان صاحب کا غصہ اور اپوزیشن پر لعن طعن سب درست مگر کوئی کارنامہ اپنا بھی تو دکھائیں،کہ وہ ساری خامیاں جو وہ دوسروں میں دیکھتے ہیں خود ان میں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ خان صاحب بھول چکے ہیں کہ وہ حکومت میں ہیں مگر وہ تو کنٹینر پر کھڑے ابھی تک جانے والوں سے حساب مانگ رہے۔ ایسے ہی شہزاد احمد کاشف یاد آ گیا: میں اسے چھوڑنے جاتا نہیں دروازے تک لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے