آخر کار بارشوں نے ہمارے شہر کا رستہ دیکھ ہی لیا۔ دو روز سے اوراودے اور سیاہ بادلوں سے آسمان ڈھکا ہوا ہے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی مسلسل ہو رہی ہے۔ صبح سے شام اور شام سے رات بھر شہر کی سڑکیں جل تھل ہیں۔ نالوں میں طغیانی ہے اور پرانے انجنوں والی گاڑیاں سڑکوں پہ جا بجا بند پڑی ہیں، دریچوں سے منظر آسمان کا اور رم جھم ہوتی بوندا باندی کا‘ ایسا خوبصورت اور دل رُبا ہے کہ آنکھوں میں ٹھنڈ سی اترتی محسوس ہوتی ہے۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی تو تھی کہ موسلا دھار طوفانی بارشیں ہوں گی۔ ٹیلی ویژن سے بھی ڈراوا کچھ ایسا تھا کہ بارشیں اپنے ساتھ بدنظمی اور بدانتظامی لائیں گی۔ بجلی رخصت ہو جائے گی‘ شہر کا نظام تلپٹ ہو جائے گا اور وہ کچھ ہو گا جس سے بارش کی رحمت شہریوں کے لئے سراسر زحمت بن جائے گی۔ ہم سہمے بیٹھے تھے کہ خدا جانے اور کیا کچھ ہو۔ لیکن اول تو بارشیں طوفانی انداز کی ہوئی نہیں۔ ہلکی پھلکی بوندا باندھی کو موسلا دھار کون کہے گا پھر نقصان بھی ایسا کوئی خاص نہیں ہوا۔ سوائے اس اطلاع کہ پندرہ سترہ جانوں کا کا اتلاف ہوا۔ جانی نقصان دو ایک بھی ہو تو بہت ہے۔ لیکن ڈیڑھ دو کروڑ کے شہر میں جو شہروں کا شہر ہے۔ پندرہ سترہ کا جانی نقصان شہر کے میئر کی کارکردگی پر سوال ہے۔ میئر صاحب جب سے آئے ہیں اختیارات اور بجٹ کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کام ہو تو کیسے کہ کارپوریشن کے پلے دھیلا نہیں۔ یہ کراچی کی بدنصیبی ہے کہ سارے ملک کو کماتا اور کھلاتا ہے اور اپنے اوپر خرچ کرنے کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا منہ تکتا ہے۔ اب یہ شہر سارے صوبوں کا ہے کہ ساری قومیتیں بستی ہیں جو اپنے صوبوں سے نہیں پہچانی جاتیں’’کراچی والا‘‘ کہلاتی ہیں اس لئے سارے صوبوں ہی کو اس شہر کی سرپرستی کرنی چاہیے۔ سندھی‘ پنجابی‘ بلوچ‘ پٹھان مہاجر سبھی اس شہر کی رونق ہیں جو پرانی تلخیوں کو بھلا کر پھر سے یکجان ہیں شہر میں اب بھی صفائی و ستھرائی کا مسئلہ ہے۔ اسٹریٹ کرائمز پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریفک کے نظام کو اور بہتر ہونا چاہیے شہر میں تفریح گاہوں اور پارکوں کی قلت ہے۔ جو پارک اور تفریح گاہیں ہیں‘ ان کا انتظام چوپٹ ہے۔ لے دے کر ساحل سمندر ہے تو وہاں بھی ہر طرف ریت اڑتی ہے۔ اسے خوبصورت بنانے پر کوئی توجہ نہیں کی گئی ہے۔ تفریح کے شوقینوں کے لئے پھوس گھوڑے اور مریل اونٹ بچوں کی سواری کے لئے ملتے ہیں لیکن ان کی چال ہی سے پتا چل جاتا ہے کہ کس قدر فاقہ زدہ ہیں۔ یہ شہر واقعی شہر ناپرساں ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد اقتدار میں صحیح معنوںمیں شہر کے دو میئروں نعمت اللہ خاں اور مصطفی کمال کو فنڈ فراہم کئے گئے تھے اور عرصہ بعد شہر میں اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس‘ بہ کثرت بنائے گئے تھے جو اب تک چل رہے ہیں اب پھر سے فنڈز کی کمی کا رونا ہے۔ آسمان کو بھی شہریوں کی مشکلات کا خوب اندازہ ہے جبھی پیش گوئی کے باوجود موسلا دھار طوفانی بارشیں نہ برسیں ورنہ نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا اور کارپوریشن کی بے بسی اور ناکارکردگی پر جو انگلیاں اٹھتیں وہ اپنی جگہ۔ پچھلے دو ادوار حکومت سے صدر مملکت اسی شہر کے بنتے آ رہے ہیں۔ نواز شریف عہد میں سید ممنون حسین اور موجودہ حکومت میں عارف علوی لیکن دستور میں صدر مملکت کے اختیارات ہی رسمی رکھے گئے ہیں تو یہ بے چارے صدور بھی اس شہر کے لئے کریں تو کیا کریں۔ فوجی صدر ہوتے تو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کر گزرتے کہ بعد میں بھی انہیں یاد کیا جاتا۔ ہمیں سابق سینئر کالم نگار کی بہ عجلت تمام گرفتاری اور رہائی پر افسوس صد افسوس ہے۔ اس سے پہلے ڈاکٹر شاہد مسعود اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر کامران کو بھی ہتھکڑیاں لگائے جانے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ البتہ یہاں ہم عرفان صدیقی صاحب سے اتنا ضرور عرض کریں گے کہ انہیں ہتھکڑی کے ساتھ قلم کو بلند کر کے اس کا غلط اور بے بنیاد تاثر نہ دینا چاہیے تھا۔ ایسے تمام کالم نگار اور صحافی حضرات جو قلم کو سیڑھی بنا کر اقتدار کا حصہ بنتے ہیں وہ تو پہلے ہی قلم کی قیمت وصول کر چکے ہوتے ہیں۔ جب وہ اقتدار کا حصہ بن جاتے ہیں تو ان کا قلم و قرطاس سے ناتا ویسے ہی ٹوٹ چکا ہوتا ہے، اس لئے سیاسی وفاداری کے حوالے سے جو بھی قانونی یا غیر قانونی کارروائی ہوتی ہے اس کا کوئی لینا دینا ان کے سابق پیشے سے نہیں رہ جاتا، اس لئے قلم کو سچ میں لانا خلط مبحث پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ جو کچھ بھی سینئر کالم نگار کے ساتھ ہوا اس کا پس منظر سیاسی ہے‘ صحافتی نہیں۔ ان کے ساتھ یہ سلوک اگر قلم و قرطاس کے تعلق سے ہوتا تو بے شک وہ تاثر دینا حق بجانب ہوتا جو انہوں نے دیا۔ عمران خان کی حکومت اور اس کے اقدامات ان قوتوں کو ہضم نہیں ہو رہے جو اسٹیٹس کو کی علمبردار ہیں۔ اس لئے جان بوجھ کر اس حکومت کا تاثر خراب کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ایسی کالی بھیڑوں پہ نظر رکھے اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے تاکہ یہ سازشیں دم توڑ سکیں۔ اگلے دن ٹیلی ویژن پر مری کا وہ سرکاری ریسٹ ہائوس دکھایا گیا جہاں طبلے رکھے ہوئے تھے۔ بتایا گیا کہ لنچ اور ڈنر کے وقت حاکمان وقت اور ان کے اہل خانہ کی تفریح طبع کے لئے طبلہ نواز یہ طبلے بجاتے تھے۔ انگریزی کا بڑا پرانا محاورہ جلتے ہوئے روم پر نیرو کے بانسری بجانے کا ہے۔ اپنے ملک کا بھی یہی حال رہا کہ ننگے بھوکے عوام جن برے حالوں میں زندگی گزارتے تھے‘ ان ہی کے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچنے والے کس عیش و تغم میں زندگی کا لطف اٹھاتے رہے۔ ان کے بینک بیلنس میں کروڑوں اور اربوں ڈالر کا اضافہ ہوتا گیا۔ جائیدادیں اتنی، کاروبار اتنے کہ شمار میں نہ آ سکیں۔موجودہ حکومت جیسی کیسی بھی سہی‘ یہ خدمات کیا کم ہیں کہ سابقہ حکمرانوں کی عیش پرستی کا پردہ چاک چاک ہوا جاتا ہے۔ جب تک ان حکمرانوں کی جاہ پسندی اور عیش پرستی کو لگام نہ دی جائے گی اور انہیں ایک سادہ طرز زندگی گزارنے پر مجبور نہ کیا جائے گا عوام کے دن نہیں پھریں گے۔