ہم لکیر کے فقیر معاشرے کے فرد ہیں۔ پرانے مسئلوں کے نئے حل،ہمارے گھسے پٹے اور باسی نظام میں اپنی جگہ نہیں بنا پائے۔ اسی لیے ہم مسئلوں کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ سال خوردہ مسئلوں کو سینے سے لگاتے، اذیب میں زندگیاں بسر کرتے رہتے ہیں لیکن اس مسئلے کا کوئی نیا، انوکھا، تخلیقی، روایت سے ہٹا ہوا حل قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ حکومتی سطح پر ہم مسئلوں کو کمیٹی اور کمیشن کے حوالے کر کے، کبھی نہ حل ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، فرد کی سطح پر ہم چونکہ روایت کے قیدی ہیں اسی لیے نئے حل ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوتے۔ بچوں کے بھاری بستے، بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہیں جیسے کم از کم میں اپنے سکول کے زمانے سے سن رہی ہوں۔ ہمیں بھی اپنے کمر پر بھاری بھاری سکول بیگ لاد کر سکول جانا پڑتا یہ اور بات کہ ہمیں گاڑی اور سکول بس کی سہولت میسر تھی سو لمبے فاصلے تک کبھی اتنا بوجھ خود پر لادنے کی ضرورت نہیں پڑی۔بھاری بستوں کا ایشو آج بھی جوں کا توں ہے۔ کبھی صبح سویرے اٹھ کر دیکھیں کہ کیسے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے سے کہیں بھاری بستے اپنی کمر پر لادے کس مشقت سے سکول جاتے ہیں لیکن افسوس کہ ان بچوں کے بڑے ایسے بے حس ہیں جنہیں خیال تک نہیں آتا کہ کم سن اور کمزور جسموں کے لیے یہ بھاری مشقت ان کے صحت کے کئی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ بھاری بستے ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل تلاش نہ کیا جا سکے لیکن وہی بات کہ ہم مسئلوں کو گلے لگائے اذیت میں جینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ روایت سے ہٹ کر مسئلے کا حل ہمارے لکیر کے فقیر معاشرے کو قابل قبول نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ گوارا ہے کہ ہمارے بچے اپنے کل وزن کا پچاس فیصد وزن بستے کی صورت اپنی کمر پر روز اٹھائیں اور پھر مستقبل میں ریڑھ کی ہڈی کردن اور کمر کے جملہ امراض کا شکار ہو جائیں لیکن اس مسئلے پر آواز اٹھانا اور اس کا حل نکالنا ہمیں گوارا نہیں، مسلسل بھاری بستے اٹھانے سے جسمانی عوارض صرف مستقبل میں ہی نہیں ہوتے بلکہ سات آٹھ برس کا بچہ جب اتنی کم سنی میں روز اپنی کمر پر بوجھ لادے گا تو دسویں جماعت تک جاتے جاتے، اسے کمر، گردن اور ریڑھ کی ہڈی کی کوئی تکلیف ہو سکتی ہے۔ قد اور جسمانی بڑھوتری پر بھی وزن کا اثر پڑتا ہے۔ اس طرح کا مشاہدہ جب کراچی کے عباسی شہید ہسپتال کے ڈی ایم ایس نے اپنے روزمرہ کے مریضوں کے معائنے کے دوران کیا تو انہوں نے ازخود مختلف سکولوں کے پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر صاحبان کو خط لکھا کہ وزنی بستے اٹھانے سے بچے بیمار پڑ رہے ہیں۔ ان کے قد اور جسمانی نشو و نما متاثر ہو رہی ہے اس کے لیے ایسا حل نکالیں کہ بچوں کو روزانہ اپنی ساری کتابیں اور نوٹ بکس سکول نہ لیجانی پڑیں۔ اس خط کا حوالہ پشاور ہائیکورٹ میں بھی دیا گیا جہاں بھاری بستوں کا کیس زیر سماعت تھا۔ پشاور ہائی کورٹ نے سکولوں کو اور ان سے متعلقہ اداروں اور ذمہ داران کو 4ماہ کی مہلت دی ہے کہ چار مہینے کے اندر ایسا ایسا نظام وضع کر لیں کہ بچوں کو روزانہ اتنے بھاری بیگ نہ اٹھانا پڑیں۔ بچوں کی پڑھائی کا ٹائم ٹیبل اس انداز میں بنائیں کہ روزانہ وہ تمام کتابیں اور کاپیاں بستوں میں ڈال کر نہ لے کر جائیں بلکہ جن مضمون کی کلاس ہو اس روز اسی مضمون کی کتابیں بستے میں لے کر جائیں۔ کے پی کے والے تعریف کے مستحق ہیں کہ وہاں ایسے حساس لوگ موجود ہیں جو اس نظر انداز کیے ہوئے مسئلے کو عدالت میں لے کر گئے اور اگر چار ماہ کے دوران خیبرپختونخوا میں بھاری بستوں کے حل کے لیے واقعی کوئی نظام وضع کر لیا تو پھر خیبرپختونخوا باقی صوبوں کے لیے قابل تقلید ہو گا اور بچوں کے حق میں یہ ایک شاندار قدم ہو گا۔ بھارت میں 2006ء میں بھاری بستوں کے حوالے سے قانون ساری ہوئی اور اس کے مطابق ہر بچہ اپنے وزن کا 10فیصد وزن سکول بیگ کی صورت میں اٹھائے گا۔ اس سے زیادہ غیر قانونی ہے۔ -1سکول میں سلیبس اس انداز میں ترتیب دیں کہ ہر روز بچے تمام کتابیں اور کاپیاں سکول لے کر نہ جائیں۔ -2مضامین کے دن مختص کر دیئے جائیں اور ان دنوں میں بچے بس اسی مضمون کی کاپی اور کتاب سکول لے کر جائیں۔ -3پریکٹس بک سکول کے اندر ہی رکھی جائیں۔ کلاس ورک کاپیاں سکول میں رکھی جائیں۔ اس کے لیے ہر بچے کو سکول میں ایک شیلف الاٹ کر دیں۔ وائٹ بورڈ بستے میں ڈال کر گھر لانے کی کوئی ضرورت دور تک نہیں بنتی اسے بھی سکول میں رکھا جائے۔ -5 اگر آپ طے شدہ اور مخصوص دن کے علاوہ کوئی مضمون پڑھانا چاہتے ہیں تو بچوں کو ایک روز پہلے مطلع کریں۔ کلاس روم کی الماریم یں سلیبس کی ایکسٹرا کتابیں بھی رکھی جا سکتی ہیں اگر کوئی بچہ کتاب لانا بھول جاتے تو ٹیچر اسے کلاس روم سے کتاب دے دے۔ -6ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جو سلیبس سکول نے ایک مہینے میں پڑھانا ہے۔ ہر کتاب سے ان ابواب کی فوٹو کاپی کروا لی جائے اور انہیں ایک جلد کی صورت میں اکٹھا کریں پھر بچوں کو سکول بیگ میں صرف ایک وہی کتاب ڈالنی ہو گی۔ اس سے سکول بیگ کا وزن بہت کم ہو جائے گا۔ یہ تخلیقی حل انڈیا کے سکول کے ایک پرنسپل نے پیش کیا اور اس پر عملدرآمد بھی کیا۔ اپنے کم سن بدنوں پر بھاری بستے اٹھائے سکول جاتے ہمارے بچے بھی ایک طرح کی چائلڈ لیبر ہی کرتے ہیں۔ مزدوروں کے عالمی دن پر اس چائلڈ لیبر کے بارے میں بھی ضرور سوچئے گا!