’’بھارتی مسلمانوں کی آہ‘‘ کے مصنف محمد شریف خان اوکزئی لکھتے ہیں: بھارت میں مسلمانوں کا وجود شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے۔غیر مسلم متحد اور متحرک ہیں جبکہ مسلمان منتشر اورافتراق کا شکار ہیں۔مصنف نے مذکورہ کتاب 2005ء میں لکھی۔انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بھارت سول سروس سے وابستہ رہے۔یہ رام پور کے علمی‘ ادبی اور مزاحمتی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی بڑی بہن نگہت افلاک اردو ادب کی معروف شاعر‘ ادیب ‘ افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں جبکہ نانا جان معروف شاعر حکیم عبدالھادی وفا ہیں۔مصنف بھارتی مسلمانوں کے فکر و عمل کی تقسیم در تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کہ قرآن آفاقی اصول و ضوابط کی لافانی کتاب ہے اور پیغمبر اسلام محمد مصطفی ؐ کا اسوۂ حسنہ اولادِ آدم اور بالخصوص مسلمانان عالم کے لئے پیروی کا کامل نمونہ ہیں۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ بقول مصنف بھارتی مسلمانوں کے چار طبقات ہیں۔پہلا طبقہ نام نہاد سیکولر‘ لبرل اور بھارت کی ہندو سرکار کا حلیف اور حامی ہے اور دوسرا طبقہ بھارتی قوم پرست/ نیشنلسٹ علماء کا ہے جبکہ تیسرا طبقہ اولیاء کے محبین کا ہے۔چوتھا طبقہ مسلمان عوام الناس کا ہے۔جو حقیقت پسند ہے مگر بے بس ہے۔آئندہ آنے والے دور میں چاروں طبقے ہندو برہمن کے غیظ و غضب کا شکار ہو جائیں۔مصنف نے دریں تناظر بھارتی مسلمانوں کو اندلس کے مسلمانوں سے تشبیہ دی ہے کہ اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا۔ تو فقط آہ اور افسوس رہ جائے گا۔یہ حقیقت ہے کہ پورے صلیبی انتہا پسند جنگجوئوں نے غرناطہ کے طاقتور حاکم سے دوستی کر لی اور اردگرد کی کمزور مسلمان ریاستیں ہڑپ کر لیں۔یاد رہے کہ گاندھی‘ نہرو‘ پٹیل اور ہندو انتہا پسند تنظیمیں RSSوغیرہ اپنے خصوصی وفد اندلس بھیجتے تاکہ تحقیقی شواہد کے ساتھ اندلس کے طاقتور حکمرانوں اور مسلم معاشرے کے خاتمے کی تاریخ جان سکیں۔ آج بھارت میں شاہ رخ محفوظ ہے اور نہ نصیر الدین شاہ جس کا بھائی بھارتی فوج میں میجر جنرل کے عہدے کا حامل تھا اب سب فریاد کناں ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کی موجودہ حالت زار غیر متوقع نہیں۔مسلمان عوام ہندو شناس ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہندو بہترین چاکر اور بدترین حاکم اور آقا ہے۔اسی لئے متحدہ ہندوستان کے بکھرے ہوئے مسلمانوں نے متحد ہو کر 1945-46ء کے عام انتخابات میں ہندوستان کی سرزمین کے اندر آزاد اسلامی ریاست پاکستان کے قیام کے لئے متفقہ ووٹ دیا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1946ء میں بیان دیا تھا کہ اگر ہندی مسلم اقلیت کو ہندو اکثریت اور حکومت نے اذیت دی تو پاکستان ہندوستان یعنی بھارت کے ساتھ جنگ کرنے کا حق رکھتا ہے۔برصغیر پاک و ہند میں جوہری‘ جہادی اور نظریاتی پاکستان کی اہمیت اور حیثیت اندلس کی طاقتور ریاست غرناطہ کی سی ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کشمیری اور بھارتی مسلمانوں پر اندلس اور بوسنیا جیسے مسلم کش رویوں اور پالیسی کے باوجود بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا عارضی رکن بننے کے لئے ووٹ دیتا اور کہتا ہے کہ اگر ہم ووٹ نہ دیتے تو بھارت ناراض ہو جاتا اور پاک بھارت دوستی اور تجارت خطرے میں پڑ جاتی۔ نیوی لینڈ کی مسجد پر حملہ آور اپنی لائیو ویڈیو بنا کر اپنے مسلم کش عالمی دوستوں کے ساتھ شیئرShareکرتا ہے جبکہ آندرے‘ ناروے کے وزیر اعظم پر حملہ آور ہوتا ہے۔جس نے فقط یہ کہا تھا : مسلمان بھی ہمارے کلچر کا حصہ ہیں۔آندرے کا بیان تھا کہ میں اکیلا نہیں۔میں اسلام کش عالمی تنظیم کا ایک ادنیٰ رکن ہوں۔ہندو‘ عیسائی اور یہودی میری تنظیم کا حصہ ہیں۔برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی ‘ ناروے‘ امریکہ ‘ اسرائیل‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا وغیرہ میں مساجد و مدارس پر حملہ معمول بن گیاہے نیز مذکورہ ممالک میں سرکاری سرپرستی کے ساتھ توہین رسالت مآب اور خاکہ سازی کی نمائش عام ہے۔حقیقت یہ ہے کہ غیر مسلم دنیا نے مسلمانوں کو عالمی اقتصادی شکنجے میں کس کر بے بس اور غیر بنا دیا ہے اور ساتھ ہی مسلم معاشروں اور ریاستوں میں دین و وطن کو ’’تبدیلی‘‘ اور ’’بدلا انسان‘‘ جیسی تحریکوں سے فکر و عمل میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی حالت زار پر دوسری کتاب راشد شاد کی ’’لایموت‘‘ ہے کہ جس میں مصنف نے لکھا ہے:بھارتی مسلمان جیتے ہیں نہ مرتے ہیں‘ درمیان میں لٹکے ہوئے ہیں۔بھارتی مسلمانوں کی حیات و موت ایک جیسی ہے بھارت کی ہندو سرکار اور انتہا پسند تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف نسلی تطہیر کے لئے کئی طریقے گھڑ رکھے ہیں جن سے واضح ہے کہ غیر مسلم شاید مسلمانوں سے بھی زیادہ ’’اسلام شناس‘‘ ہیں مگر یہ اسلام شناسی منفی ہے۔بھارتی ہندو سرکار اور سرکاری سرپرستی میں پلنے والی 7ہندو انتہا پسند تنظیمیں کہتی ہیں کہ بھارتی مسلمان ہندو مذہب یعنی بت پرستی کی تعظیم کرنا سیکھیں۔بھارت کی غیر مسلم آبادی اچھوت‘ دلت وغیرہ کو مسلمان بنانا یعنی تبلیغ اور دعوت و ارشاد کا کام ترک کریں۔مکہ و مدینہ جانا بند کریں اور فی الحال ہندو مندر نہیں تو درگاہوں اور بارگاہوں کو مکہ و مدینہ سمجھیں۔یعنی مہا سبھا کی شدھی اور سنگھٹن تحریک زوروں پر ہے۔نیز اسلام باقی مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور تھا۔مسلمان دلوں سے یہ بات نکال دیں کہ فقط اسلام ہی درست مذہب ہے۔سب مذاہب کی تعلیمات انسان دوستی جیسی ایک ہی ہیں۔مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں۔قرآن‘ وید‘ انجیل ‘ زبور وغیرہ سب الہامی کتابیں ہیں۔مسلمان اپنی فکر بدلیں کہ قرآن کے علاوہ دیگر الہامی کتب تحریف شدہ ہیں اور مذاہب انحراف کا شکار ہیں۔اس بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے ایک عالمی مذہب اور عالمی تصوف کی تحریک کو عام کرنے کا کام کر رہے ہیں۔