شریف فیملی کے ساتھ عالم بالا کے کیا معاملات چل رہے ہیں۔ اس پر کئی طرح کی دلچسپ حکایات آتی رہتی ہیں لیکن کراچی کے ایک معاصرنے کچھ زیادہ ہی دلچسپ رپورٹ ’’قابل اعتبار‘‘ ذرائع کے حوالے سے چھاپی ہے۔ لکھا ہے معاملات قریب قریب طے ہو چکے، نواز شریف طویل عرصے کے لیے باہر چلے جائیں گے اور سیاست سے کوئی علاقہ نہیں رکھیں گے ان کے بعد پارٹی کی قیادت شہباز کے سپرد ہو گی اور اس نئی مسلم لیگ کو عالم بالا سے ’’حب الوطنی‘‘ کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ معتبر ذرائع کی رپورٹ یہاں تک تو خیر اتنی حیرت والی نہیں لیکن آگے کا حصہ مزے کا ہے۔ لکھا ہے، محب وطن جماعت قرار پانے کے بعد شہباز لیگ کو عمران خان کے ساتھ شریک اقتدار بھی کیا جائے گا۔ آپ کو یقین نہیں آیا؟ ٹھیک ہے، بات ہی ایسی ہے کہ یقین کرنا مشکل ہے لیکن اس دنیا میں اور بھی تو بہت کچھ عجیب ہوتا ہے۔ 25 سیٹوں پر جیتنے والی پارٹی اچانک سے 110سیٹوں پر جیت جاتی ہے۔ اس پر بھی تو آپ نے یقین کیا تھا۔ پھر اس پربھی یقین کر لیجئے اور تصور فرمائیے کہ شریک اقتدار ہو کر شہباز شریف کس طرح کی پریس کانفرنس کریں گے۔ شاید وہ فردوس عاشق اور شہریار آفریدی کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کریں، عمران خان کے ’’وژن‘‘ کی تعریف میں جرمنی جاپان کے قلابے ملائیں اور پھریوں فرمائیں کہ معیشت کا جو بیڑہ غرق ہو چکا ہے(جو تب تک مزید غرق یعنی غرق ترین ہو چکا ہو گا) تو اس میں عمران خان کا کوئی قصور نہیں، یہ سب نواز شریف اور مریم نواز کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ معاصر نے آگے چل کر لکھا ہے کہ شراکت اقتدار ممکن نہ ہوئی تو ٹیکنوکریٹ بندوبست بھی آ سکتا ہے لیکن وہ تو پہلے ہی آ چکا ہے، مزید کیا آئے گا۔ کم و بیش ساری حکومت ہی غیر منتخب ٹیکنوکریٹ چلا رہے ہیں۔ رضا ربانی نے اس پر ایک بیان بھی دیا ہے۔ کہا ہے کہ سولہ سترہ مشیر بغیر حلف اٹھائے وزارتیںچلا رہے ہیں۔ کچھ اور باتیں بھی کہی ہیں۔ ربانی صاحب کا باقی بیان تو ٹھیک لیکن یہ حلف والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ حلف کیا ہوتا ہے اور اسے اٹھانے سے کیا مراد ہے؟ اور اٹھانے کے بعد کیا ہوا کرتا ہے؟ خیر، ایک شوشہ اس دوران صدارتی انتخابات کا بھی اٹھا۔ لوگوں نے سمجھا یہ بحث خلائی مخلوق کی طرف سے شروع کی گئی لیکن تازہ تازہ انکشاف یہ ہوا ہے کہ اس کے پیچھے خلائی مخلوق نہیں۔ احبابِ انصاف ہی تھے جو سینکڑوں اکائونٹ کھول کر یہ بحث چلا رہے تھے، کئی لاکھ ٹیوٹس کی لیکن، ان گنت پوسٹ بھی دیکھنے آئیں، درجن بھر تجزیہ نگار بھی بحث فرماتے رہے اور مزید تازہ انکشاف یہ ہوا ہے کہ اس بھاری پتھر کو چومے بنا ہی ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود کا بیان بطور سند پیش کیا جا سکتا ہے۔ فرمایا، صدارتی نظام ممکن ہی نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے اور پھر تبصرہ فرمائیے کہ پتھر کتنا بھاری تھا؟ ٭٭٭٭٭ مذکورہ بالا رپورٹ سے بڑھ کر ایک اور رپورٹ معتبر ترین ذرائع کی یہ بھی ہے کہ صدارتی نظام کے انگور کھٹے ہیں، یہ معلوم ہونے کے بعد صاحب قومی اسمبلی کو نوازنے کا ارادہ فرما رہے ہیں۔ صرف قومی اسمبلی نہیں، کم سے کم دو صوبائی اسمبلیاں بھی۔ کہ پھر نئے الیکشن ہوں گے اور گنتی 110سے بڑھ جائے گی۔ اگر معتبر ترین ذرائع کی یہ اطلاع سچی ہے تو کوئی جا کر صاحب بہادر کو اطلاع دے کہ یہ انگور تو اور بھی کھٹے نکلیں گے یعنی کھٹے ترین ہوں گے۔ پھر کہانی کا نتیجہ وہی ہو گا جو بلخ کے مزار والے شیر کے حصے میں آیا تھا۔ مزار کے اس بلخی شیر کی ’’رخصتی‘‘ پر ایک اخبار کی شہ سرخی ان الفاظ میں شائع ہوئی تھی کہ ’’بچے سقّے بھاگ گئے‘‘ اس طرح کی سرخی میں معمولی سے ردوبدل کی گنجائش تو ہوتی ہی ہے، مثلاً ’’بچہ سقّہ بھاگ گیا‘‘۔ صاحب بہادر ان کھٹے ترین انگوروں سے پرہیز فرمائیں، ورنہ گلا ایسا بیٹھے گا کہ حضرت داغ کی طرح بیٹھے کا بیٹھا ہی رہ جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ تبدیلی جماعت کے یوم تاسیس پر ہونے والے دو جلسوں کا خوب ’’چرچا‘‘ ہے۔ ایک کراچی میں ہوا، دوسرا پختونخوا کے کسی شہر میں، دونوں میں ہلڑ بازی، ایک دوسرے کی ٹھوکا پیٹی ہوئی اور مار دھاڑ کی وجہ سے جلسے منسوخ ہو گئے۔ اخبار کی خبر ہے کہ کراچی کے جلسے میں قیادت بھاگ گئی۔ دوسرے جلسے کے بارے میں لکھا ہے کہ قائدین خطاب کیے بغیر چلے گئے۔ بھاگ جانے اور چلے جانے میں فرق ہوتا ہو گا۔ کراچی کی جو قیادت بھاگی ان میں سرفہرست حلیم عادل شیخ تھے۔ پتہ نہیں انہیں مفروراول کا خطاب دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ دوسرے جلسے کے شرکاء کے بارے میں تو پتہ نہیں لیکن کراچی کے جلسے کے حوالے سے کراچی ہی کے اخبارات نے بتایا ہے کہ دو اڑھائی سو لوگ موجود تھے جو جلسہ شروع ہونے سے پہلے ہی باہم صف آرا ہو گئے اور ایک دوسرے کو ڈنڈوں، بوتلوں اور کرسیوں سے خوب ٹھوک بجا کر دیکھتے رہے۔ وہ مہذب القابات و خطابات جو مخالفین کے لیے وقف تھے، بڑی فراخدلی کے ساتھ ایک دوسرے میں تقسیم کرتے رہے۔ یوم تاسیس کی مناسبت سے ترمیم سندھ مصرعہ پیش ہے ع میری ’’تاسیس‘‘ میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی اور اب یہ خرابی ملک کی جڑوں میں گھس گئی۔