لاک ڈاون کس طرح کامیاب رہا ہے؟ اور اگر مکمل لاک ڈاون نافذ نہیں کیا جاتا تو پھر صوررتحال کس قدر ابتر ہوتی؟ آپ 138 کروڑ‘‘ آبادی کے حامل اس ملک میں کیسے جوکھم لے سکتے ہیں، جہاں زیادہ تر آبادی غریب ہے کیا ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے نہیں کہا کہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ ؟ جان تو ہے۔ اگر دنیا کے کسی ملک میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کا ہندوستان میں کورونا سے ہونے والی اموات کا تقابل کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک ملین میں اموات کی شرح دنیا میں سب سے کم ہمارے ملک میں ہے۔ اسلئے آپ کے منتخب کردہ خدا کا شکریہ اب تک بہت اچھا ہے اور گھروں میں واپس آجاو؟ حقیقت میں؟ 1991ء کے بعد جن لاکھوں کروڑوں لوگوں کو غربت کے دلدل سے نکالا گیا تھا پھر دوبارہ غربت کے اس دلدل میں گرنے کے قریب ہیں۔ یقینا ہم بقید حیات ہیں لیکن 1979ء کی ہٹ فلم مسٹر نٹور لال میں امیتابھ بچن نے جو ڈائیلاگ ادا کیا تھا اسے یاد کیجئے فلم میں امیتابھ بچن نے کہا تھا ’’یہ جینا بھی کوئی جینا ہے للو‘‘؟ یا مجھے اس کی بجائے ہندی سنیما کے 5 دہے قبل کے کیلنڈر کو پلٹنے اور عمدہ و معیاری شاعری کی مدد سے آپ کو مزید نشری تفصیل پیش کرنے دیجئے۔ آنجہانی گوپال داس نیرج (1925ئ-2018ئ) کو زیادہ تر درد بھری شاعری کے شاعر کی حیثیت سے یاد رکھا گیا ہے حالانکہ انہوں نے بعض غیر معمولی رومانی اشعار بھی لکھے ہیں جو نسل درنسل سنے اور پڑھے جارہے ہیں۔ ان کے لکھے نغموں میں ’’لکھے جو خط تجھے (یہ نغمہ انہوں نے ششی کپور کے لئے 1968ء کی فلم کنیادان کے لئے لکھا تھا) اور پھولوں کے رنگ سے (دیوانند 1970ء کی فلم برہم چاری) شامل ہیںلیکن ان کے درد بھرے نغموں نے ان کی یادوں کو زندہ رکھا ہے۔ ان درد بھرے نغموں میں ’’کارواں گذر گیا غبار دیکھتے رہے‘‘ بھی شامل ہے۔ جسے محمد رفیع مرحوم نے گایا اور روشن نے کمپیوز کیا، یہ نغمہ 1966ء کی فلم نئی عمر کی نئی فصل میں شامل کیا گیا جس میں تنوجہ نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے یہ ناکام عاشقوں کا مقبول ترین نغمہ بن گیا تھا۔ ایک سینئر پولیس عہدہ دار کیمرہ کے روبرو یہ اعلان کرتا ہے کہ ہر کسی بشمول صحافیوں اور ڈاکٹروں کے لئے ضلع کی سرحدیں بند ہیں (برا نہ مانیں) ہیلو … !! ریاست نے بڑے فخر کے ساتھ میڈی سٹی نامی کسی چیز کی تعمیر عمل میں لائی جہاں کئی بڑے اسپتال کام کرتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مریض ڈاکٹرز اور نیم طبی عملہ دہلی سے یہاں آتا رہتا ہے۔ ایک ایسے ضلع کو جو ہندوستان کی تیسری وادی سلیکان بننے جارہا ہے اسے بند کردینا یعنی اسکی سرحدوں کو بند کردینا پاگل پن کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ایسا زون ہے جو ٹرانزٹ کیلئے دہلی اور راجستھان کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ آپ سوچئے کہ یہ کتنا مضحکہ خیز ہے اور مطلق اقتدار کی ایک بدترین مثال ہے جو انتظامیہ کو پاگل پن کی طرف لے جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ ’’دی پرنٹ‘‘ کی نامہ نگار جیوتی یادو کی اسٹوری پڑھئے جس میں انہوں نے بتایا کہ کسطرح ریاستی حکومت کورونا وائرس کو دہلی میں ہی روکنے کی خاطر سرحدی ضلع کی عمدہ ، سڑکوں کو کھود رہی ہے اچھا آئیڈیا ہے۔ T-72 دبابے چلاتے ہوئے وہ آتا ہے تو ایک خندق کھودی جارہی ہے۔ امریکہ کی طرح ہندوستان کے یہاں نوٹ کی چھپوائی کے لئے نقد رقم یا مالیاتی room head نہیں ہے امریکہ میں ریزرو کرنسی کی بھرمار ہے جو وہ اس بحران سے باہر نکلنے کیلئے خرچ کرسکتا ہے لیکن اسکے یہاں بری، بحری فوج اور فضائیہ ہے جو آپکے جذبہ کو پروان چڑھا سکتی ہیں اور ہم بہت جلد خلائی باسٹ بیانڈس اور یہاں تک کہ ہیلی کاپٹروں سے ان اسپتال پر پھول برسائے جانے کے مناظر دیکھیں گے جہاں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل اکشے کمار کی فلم کے خوبصورت آئیڈیاز ہیں لیکن جب لاکھوں کی تعداد میں غریب ورکرز اپنے گھروں کو واپس ہوتے ہیں تو ان پر کوئی پھولوں کی بارش نہیں کرتا۔ یہ حقیقت میں 2020ء ہے جو انگریزی کے اس محاورہ LET THEM EAT CAKEکے مساوی ہے۔ ویتنام جنگ کے دوران پریس کارپس نے امریکی فوج کی روزانہ کی بریفنگ کو ایک نام فائیواو کلاک فالیس ’’دیا تھا اس طرح کی چیزیں اس وقت ہوتی ہیں جب ایک اسٹیبلشمنٹ اپنے عوام کو بچوں کی طرح دیکھنا شروع کردیتی ہے۔ نئی دہلی میں وزارت صحت کی روزانہ کی بریفنگ کا مشاہدہ کیجئے جو ملک میں کووڈ۔ 19 کی صورتحال کا مجموعی جائزہ پیش کررہا ہے۔وزارت صحت کی بریفنگ بھی ایسا لگتا ہے کہ ایک تسکین کے لئے ہے اور بڑی ناگواری سے دی جارہی ہے اور بہت ہی شرماتے ہوئے کسی بھی سوال کا جواب وہاں دیا جاتا ہے۔ آپ اس بریفنگ کو فور او کلاک فالیس کا نام دے سکتے ہیں۔ صرف کیس اور اموات کی تعداد کورونا وائرس پر قابو پانے دنیا کے دوسرے ملکوں سے ہم کس قدر بہتر اقدامات کررہے ہیں وہی باتیں ہرروز اس بریفنگ میں بتائی جاتی ہیں۔ (بشکریہ سیاست بھارت)