نیب لاہور نے آمدن سے زائد اثاثہ جات و دیگر مقدمات میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور ان کے خاندان کے مختلف صنعتوں میں حصص منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور نے احکامات پر فوری عملدرآمد کی ہدایت کی ہے۔ اس فیصلے کے بعد شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور دیگر افراد خانہ مذکورہ کاروباری اداروں سے منافع نہیں لے سکیں گے تاہم چنیوٹ انرجی‘ رمضان انرجی‘ شریف ڈیری‘ کرسٹل پلاسٹک‘ العربیہ ‘ شریف ملک پروڈکٹس ‘ شریف فیڈ ملز‘ رمضان شوگر ملز اور شریف پولٹری کی فیکٹریاں اپنا کام کرتی رہیں گی۔ پاکستان میں معمول کا نظام انصاف وائٹ کالر جرائم کی بیخ کنی میں ناکام رہا ہے۔ پولیس سٹیشن کا عملہ اور ماحول دونوں انسان دشمن ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو پولیس اور پٹوارکلچر کو بدلنے کی بات کرتی ہیںاقتدار مل جائے تو وہی عوام دشمن پولیس افسر اور بدعنوان حکام حکمرانوں کے حاشیہ بردار دکھائی دیتے ہیں ۔اس نظام کو سیاسی مداخلت اور بدعنوانی کا اس قدر گھن چاٹ چکا ہے کہ اب یہ ناقابل اصلاح سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک جرم ہوتا ہے‘ اس کے متعدد گواہ اور دستاویزی ثبوت موجود ہوتے ہیں۔ مدعی کارروائی کرنا چاہتا ہے مگر ہر روز صورت حال ملزم کے حق میں ہوتی جاتی ہے۔ کبھی گواہ منحرف ہو جاتا ہے‘ کبھی ثبوت ضائع ہو جاتے ہیں اور حالات زیادہ خراب معلوم ہوں تو مدعی مقدمہ کی اپنی زندگی خطرات میں گھر جاتی ہے۔ یہ صورت حال ایک روز میں بدترین سطح پر نہیں پہنچی بلکہ اقتدار کے حصول کے لئے اتاولے ہونے والے سیاستدانوں نے پولیس‘ ایف آئی اے ‘ اینٹی کرپشن اور دیگر اداروں کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں احتساب سیل کا ادارہ بنایا۔ یہ ادارہ اس بات کی علامت تھا کہ پولیس عوام کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت میں ناکام ہو چکی ہے اس لئے کم از کم عوام کو مالیاتی جرائم سے بچانے کے لئے یہ ادارہ فعال کام کر سکے مگر حرص اقتدار اور مخالف کو چت کرنے کے لئے جائز ناجائز طریقہ کار اختیار کرنے کی سوچ نے اس ادارے کی ساکھ بھی برباد کر دی۔ ن لیگی قیادت نے اپنا منظور نظر شخص اس کا سربراہ تعینات کیا۔ اس نے ساری توانائی مخالف سیاسی رہنمائوں کے خلاف کارروائیوں پر مرکوز رکھی‘ حتیٰ کہ وہ اور میاں شہباز شریف اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے جج ملک قیوم کو فون کر کے بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کی ہدایت کرتے پکڑے گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد عوام کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر سات نکاتی پروگرام دیا۔ اس پروگرام کا سب سے مقبول نکتہ قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب تھا۔ عوام سمجھتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دو دو بار حکومت میں آنے کے باوجود ان کے مسائل حل نہیں کر سکے۔ عوام کے لئے یہ بہت عجیب بات تھی کہ ان کی زندگی کا معیار گرتا چلا جا رہا ہے مگر ہر برسر اقتدار شخص کے خزانے دن دونے رات چوگنے ہو رہے تھے۔ احتساب کے ادارے کی تشکیل نو کر کے اس کا نام قومی احتساب بیورو رکھ دیا گیا۔ اس کے سربراہ کی مدت تعیناتی کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ آغاز میں اس ادارے نے لائق تحسین کام کیا مگر پھر اس کی کارکردگی میں جنرل پرویز مشرف کی سیاسی مصلحتیں سست روی شامل کرنے لگیں۔ پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو اس نے احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام قرار دے کر وہ کام بھی روک دیا جو میرٹ کے مطابق جرم کہلاتا تھا۔ قمر الزماں چودھری چیئرمین نیب بنے تو عوام کو ادارے کی کارکردگی سے شکایت پیدا ہونے لگی۔ بعدازاں موجودہ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے ادارے کی کارکردگی پر وارد اعتراضات کو ایک ایک کر کے دور کرنا شروع کیا۔ یہ ان کے پرخلوص اقدامات کا نتیجہ ہے کہ تمام تر الزام تراشی کے باوجود مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی ‘ تحریک انصاف یا کوئی اور سیاسی جماعت نیب کے مقدمات کو سیاسی انتقام ثابت نہیں کر سکتی۔ نیب شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد سے ظاہر کی گئی آمدن سے زاید اثاثے رکھنے کے معاملے پر تحقیقات کر رہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ ان کے بیٹوں اور اہلیہ کو متعدد بار نیب طلب کر چکی ہے۔ نیب ترجمان کہتے رہے ہیں کہ یہ خاندان تقریباً تین ارب روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔ آشیانہ ہائوسنگ سکیم کیس میں شہباز شریف نے بتایا تھا کہ ان کے مالی معاملات کی دیکھ بھال ان کے بیٹے سلمان شہباز کرتے ہیں۔ نیب نے شریف خاندان کے فرنٹ مین مشتاق چینی کو بھی گرفتار کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ منی لانڈرنگ کا کام مشتاق چینی کے ذریعے کیا گیا اس نے نیب کو دیے بیان میں تسلیم کیا کہ حمزہ اور سلمان شہباز کے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے اکائونٹ میں 50کروڑ روپے منتقل کئے۔ شہباز شریف پر رمضان شوگر ملز کیس میں فرد جرم عائد ہو چکی ہے جس کے مطابق انہوں نے وزیر علیٰ پنجاب کی حیثیت سے چنیوٹ میں ایک نالہ بنانے کی ہدایت دی۔ اس کا مقصد اپنے بیٹوں کی ملکیت رمضان شوگر ملز کو سرکاری فنڈز سے سہولت فراہم کرنا تھا۔ اس نالے کی تعمیر پر 20کروڑ خرچ ہوئے۔ نیب نے اس معاملے میں سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ شریف خاندان اور ان کے مالیاتی مشیروں کو احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں کچھ مزید قانونی کارروائی کی گنجائش ہو یا شہباز شریف اس معاملے میں کسی ریلیف کے لئے دستیاب طریقہ کار سے رجوع کریں مگر قابل فکر یہ بات ہے کہ جرم ہونے پر ہماری حکمران اشرافیہ کسی طرح کی پشیمانی کا اظہار نہیں کرتی۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ان قانونی اسقام کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے جو احتساب کے جائز عمل کو سیاسی انتقام کے پروپیگنڈے کی نذر کرنے کا موقع دیتے ہیں۔