افغانستان جو’’ خراسانِ قدیمی ‘‘ہے وہاں امن دنیا بھر کی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ نہ صرف افغانستان بلکہ اس خطے کے تین ممالک کے بارے میں ایک کسنجر ڈاکٹرائن (kissinger Doctrine)ہے ،جو سی آئی اے سے لے کر دیگر عالمی سطح کی خفیہ ایجنسیوں میں مرکزی نکتے کے طور پر سمجھی جاتی ہے کہ اگر آپ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا پر اپنا قبضہ مسلط کرنا اور مفاد کا تحفظ چاہتے ہیں تو پھر پاکستان، افغانستان اور ایران میں کبھی مستحکم اور عوام میں مقبول حکومتیں نہ بننے دینا، وہاں اندرونی خفلشار، خانہ جنگی اور تشدد کو پنپنے میں مدد دینا اور انہیں ہر وقت کسی نہ کسی ایسے تنازعے میں الجھائے رکھنا جس کی وجہ سے عالمی برادری میں ان کے بارے میں مسلسل تشویش پائی جاتی رہے۔ امریکی آرکائیوز کے دفتر مورخ (Office of the Historian)کے قدیمی ریکارڈ میں اس ڈاکٹرائن کی گونج بار بار سنائی دیتی ہے۔اسی بنیاد پر ان تینوں ملکوں میں نفرتوں کے بیج بوئے گئے، علاقائی تنازعات کو ابھارا گیا، علیحدگی پسندوں کو منظم کیا گیا، حکمرانوں ، لیڈروں اور اسٹبلشمنٹ کے اعلیٰ کارندوں کو خریدا گیا۔ ایران میں آیت اللہ خمینی کی سربراہی میں امریکہ مخالف انقلاب آیا تو اس پرعراق کے ذریعے جنگ مسلط کر وائی گئی ، جو آٹھ سال جاری رہی اور اس دوران وہ ایرانی انقلاب جو اپنی اٹھان سے مسلکی اختلاف سے بالاتر تھا، بدترین ’’عرب و عجم‘‘ قوم پرستی میں الجھ کر رہ گیا۔ عرب، ایران اختلافات ایسے ابھر کر سامنے آئے کہ آج تک صرف ایران ہی نہیں بلکہ پورا مشرق وسطیٰ اس کی قیمت چکا رہاہے۔اس عرصے میں پاکستان کی حالت بھی مختلف نہ رہی۔ عدم استحکام، تشدد، خونریزی اور معاشی بدحالی ہماری پہچان بن گئی۔ اپنے محلِ وقوع، افرادی قوت اور تاریخ کے اعتبار سے افغانستان کی عالمی طاقتوں کیلئے بربادی و تباہی زیادہ اہم تھی۔ افغانستان ایسا لوہے کا چنا ہے جس پر کسی عالمی طاقت کا زور نہیں چلتا، جو اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے دانت تڑوا بیٹھتی ہے اور پھر وہ ایسے سانپ کی طرح جس کے دانت نیولہ کھٹے کر دیتا ہے،وہ صرف اپنی پھنکار کے بل بوتے پر اپنارعب قائم رکھنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 27 ستمبر1996ء کو کابل میں طالبان کا پُرامن پرچم لہرایا تو اسی دن سے افغانستان کو خانہ جنگی میںالجھانے کا منصوبہ تیز کر دیا گیا۔ اسی دن کمانڈر احمد شاہ مسعود تاجکستان کی سرحد عبور کرکے دوشنبے میں بھارتی سفیر راج متھو کمار کے ساتھ موجود تھااور ساتھ ہی 24سالہ امراللہ صالح بھی تھا ،جو آجکل اشرف غنی کا وزیرداخلہ ہے اورجس کا شمار پاکستان کے بدترین دشمنوں میںہوتا ہے۔طالبان کے خلاف بھارت نے شمالی اتحاد کی مالی اور عسکری امداد شروع کر دی۔انہیں لڑنے کیلئے دس ہیلی کاپٹر دیئے گئے جو تاجکستان کی سرحد کے پاس فارفور میں چوکس موجود رہتے۔یہ ہیلی کاپٹر ایک ایسے ہسپتال کے ہیلی پیڈ کے پاس ہوتے جو 7.5ارب ڈالر کی لاگت سے بنایا گیا تھا ۔ شمالی اتحاد کے زخمی یہاں لائے جاتے، علاج کرواتے اور واپس جنگ کا ایندھن بننے کیلئے بھیج دیئے جاتے۔ طالبان کے خلاف برسرِ پیکار شمالی اتحاد کی عسکری ٹریننگ اور امداد کا ذریعہ ایران بھی تھا، جس نے طالبان مخالف اتحاد کے مرکز مزار شریف میں اپنا قونصلیٹ بھی قائم کر رکھا تھا اور ساتھ ہی پاسداران کا ٹریننگ کیمپ موجود تھا ۔ عبدالرشید دوستم کا ایک کمانڈر عبدالملک پہلوان اس سے علیحدہ ہوا تو اس نے مزارشریف پر قبضہ کر لیا اور طالبان کو دھوکے سے وہاں آکر حکومت بنانے کی دعوت دے دی۔ یوں فریب سے بلا کر تین ہزار طالبان کو سفاکی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔درندگی کا عالم یہ تھا کہ دوہزار طالبان کو کنٹینروں میں ڈال کر کنٹینر صحراکی دھوپ میں چھوڑ دیئے گئے اور وہ اندر ہی تڑپ تڑپ کر مرگئے۔عبدالملک پہلوان، قیدی طالبان میں سے اگر کسی کی گرد کاٹتا تو اس پرپیٹرول چھڑک کر آگ لگاتا جس سے لاش تڑپنے لگتی تو وہ کہتا کہ یہ حزب و حدت کے سربراہ عبدالعلی مزاری کے قتل کا بدلہ ہے۔اس ظلم کے بعد طالبان نے جب منظم ہوکر مزارشریف پر پھر حملہ کیا تو کوئی ان کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ اسی حملے میں گیارہ ایرانی پاسداران بھی مارے گئے، جنہیں تہران نے سفارتی اہلکار قرار دے دیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد ایران نے افغانستان کی سرحد پر ستر ہزار افواج کھڑی کر دیں۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ملا محمد عمرؒ نے اپنا تاریخی فقرہ کہا تھا، ’’افغانستان ایک گوند کا تالاب ہے، اس میں گھسنا آسان ہے نکلنا مشکل‘‘۔لیکن فروری 1999ء میں صلح ہوگئی اور طالبان حکومت اور ایران کے درمیان براہ راست گفتگو کا آغاز بھی ہوگیا،مگرحالات بہتر نہ ہو سکے اوراکتوبر 2001ء میں اسی شمالی اتحاد کی افواج اپنے پشت پناہوں، امریکہ، بھارت، ایران، عالمی برادری اور پاکستان کی مدد سے کابل میں داخل ہوگئیں۔ پاکستان کے نام نہاد دانشور جن کے دماغ میں یہ بات سماہی نہیں سکتی تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق نہتے اور چھوٹے سے گروہ کو بڑے گروہ پر فتح دے سکتا ہے، وہ اپنی منطقیں بھگارتے رہتے ہیں۔ مثلاً 1995ء میں یہ گفتگو عام کر دی گئی کہ طالبان کو تو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے بنایا ہے اور ہماری خفیہ ایجنسیوں والے بھی خاموشی سے اسکا کریڈٹ لینے لگے۔ حالانکہ کئی برسوں تک تو یہ ’’خفیہ والے دانشور‘‘ یہاں تک کہتے پھرتے تھے کہ ملا عمر نام کی کوئی شخصیت ہی نہیں ہے، سب ہماری آئی ایس آئی کا کھیل ہے۔جبکہ اسوقت پاکستان کی افغانستان میںحالت یہ تھی کہ جب گیارہ نومبر 1994ء کو طالبان نے سرحدی شہر سپن بولدک پر قبضے کے بعد قندھار کی جانب پیش قدمی شروع کی تو تختہ پل پرپاکستان کی این ایل سی کے ٹرکوں کا بڑا قافلہ یرغمال بنایا ہوا تھا اور اس پورے علاقے پر گلبدین حکمت یارکی حزبِ اسلامی کی حکومت تھی۔ طالبان نے آگے بڑھنے سے پہلے اس قافلے کو آزاد کروا کر واپس پاکستان روانہ کیا۔ قافلے کی چمن واپسی پرپاکستان کی اعلیٰ سطح کی قیادت حیران تھی اور پوچھتی پھررہی تھی کہ یہ کیسے ہوا۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد ملا عمرؒ نے ایک پالیسی بیان دیا تھا کہ ’’پاکستان ہمارا دوست ہے اور دوست رہے گا کیونکہ اس کی اور ہماری سلامتی کے تقاضے مشترک ہیں، ہم الگ ہو کر کسی قابل بھی نہیں رہیں گے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کے ساتھ مل کر جو کچھ کیا، اس سب کے باوجود طالبان کے نزدیک ملا محمد عمرؒ کا یہ پالیسی بیان آج بھی ایک وصیت کا درجہ رکھتاہے اور وہ پاکستان سے بگاڑنا نہیں چاہتے۔ امریکہ جارہا ہے۔ اس کے جانے سے پہلے گذشتہ ماہ تاجکستان کے اسی فارفور کے اڈے کو طالبان کے خلاف منظم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاکہ وہاں سے سی آئی اے ، بھارت اور شمالی اتحاد مل کر افغانستان میں بدامنی پیدا کریں اور اسطرح طالبان کو پاکستان ہجرت پر مجبور کیا جائے۔ لیکن مومن کی بصیرت رکھنے والے طالبان نے سب سے پہلے تاجکستان کی ہی پوری سرحد پر قبضہ کیا اور 22جون2021ء کوبندرشیر خان سمیت ساری تاجک سرحد طالبان کے قبضے میں آچکی تھی۔ علاقے میں سوائے قندوز کے مرکزی شہر کے سارا علاقہ آج طالبان کے زیر تسلط ہے۔ تاجکستان میں موجود استاذ عطا، فیروز الدین عمیق، احمد شاہ مسعود کا بیٹا اور بھائی اپنے پلان کی ناکامی پراب بے بسی سے اس پاکستان کی سمت دیکھ رہے ہیں، جسے کل تک وہ گالیاں دیتے تھے ۔مگر 27جون کو طالبان نے پاکستان اور افغانستان کی پوری سرحد پر قبضہ مکمل کر لیا ہے اور اب وہاں افغان فوجی نہیں بلکہ طالبان کھڑے ہیں۔وہ لوگ جو مدتوں بھارتی دستر خوان کی روٹیاں توڑتے رہے جن میں استاذربانی کا بیٹا صلاح الدین، عبد اللہ عبد اللہ ، احمد شاہ کا بیٹا احمد مسعود، بھائی احمد ضیاء مسعود اور دیگر، ان سب کو اب پاکستان یاد آرہا ہے۔ ’’وسیع البنیاد‘‘ حکومت یاد آرہی ہے۔ عمران خان کو بھی جمہوریت کا خمار چڑھ چکا ہے۔ لیکن !یاد رکھو طالبان نے بیس سال شریعت کے نفاذ کے لیئے شہادتیں دی ہیںاور پاکستان نے عالمی اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دے کر ستر ہزار جانیں قربان کی ہیں۔ انہیں عالمی اسٹبلشمنٹ کے ایجنڈے پر راضی کرنے کی کوشش کبھی نہ کرنا۔ دنیا میں بھی رسوائی ہوگی ،کہ ایٹمی قوت کا خمار امریکہ اور روس کو بھی تھا دونوں ذلیل ہوئے۔ لیکن اصل رسوائی تو حشر کے میدان میں ہوگی۔(ختم شد)