سعید اظہر برعکس تھے۔ لا تعلق، بے نیاز اور کبھی کبھی تو بے زار بھی۔ ان کی کہانی کا اگر کوئی عنوان ہو سکتاہے تو یہ کہ بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں۔ سعید اظہر کی کہانی بیچ میں رہ گئی۔مجیب الرحمٰن شامی اور عباس اطہر کا ذکر کیے بغیر یہ داستاں مکمل نہیں ہو سکتی۔ دونوں ممتاز ایڈیٹر ان کے مربی تھے۔ ان سے شکایت پالتے لیکن سرپرستی بھی کرتے۔ یہ کہانی شاید ایک طویل خاکے ہی میں سمٹ سکتی ہے لیکن پے بہ پے حادثات اور افق تابہ افق تک پھیلے ہوئے کرونا کے خوف میں ایسی فرصت کہا ں۔ کتنی ہی کہانیاں وقت کی وحشت میں ناتمام رہ جاتی ہیں۔ سعید اظہر کی صحافتی زندگی کا بہترین دور شاید وہ تھا، جب 1978ء میں ’’روزنامہ زندگی‘‘ میں انہوں نے مزاحیہ کالم لکھنا شروع کیا۔ اس پہ ایک نوٹ لکھا تھا ’’یہ کالم محمد سعید اظہر سکنہ ستوکی، تحصیل ڈسکہ،ضلع سیالکوٹ نے حسب الحکم مجیب الرحمٰن شامی تیارکیا۔ اگر کسی کو شکایت ہو تو افسرِ مجاز سے رجوع کرے۔‘‘یہ صحافتی تاریخ کے چند بہترین کالموں میں سے ایک تھا۔ اگر وہ ریاضت کرتے تو یقینی طور پر ایک بڑے مزاح نگار بن کر ابھرتے مگر ریاضت ان کے مزاج میں نہیں تھی۔ یہ دنیا سعید اظہر کو راس نہ آئی اور انہوں نے اس سے کنارہ کر لیا۔ عمر بھر کنارہ ہی کیے رکھا۔ بے نیازانہ ز اربابِ کرم می گزرم چوں سیاہ چشمی کہ برسرمہ فروشاں گزرد 1991ء میں عباس اطہر، منّو بھائی اور یہ ناچیز ’’روزنامہ پاکستان‘‘ سے وابستہ ہوئے تو سعید اظہر نیوز روم کی پہلی شفٹ کے انچارج تھے۔ فیصلہ سازی کا سارا انحصار عباس اطہر پہ تھا، جو ایک اساطیری نیوز ایڈیٹر تھے۔ صحافتی تاریخ کے واحد نیوز ایڈیٹر، جن کی سرخیوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ وہی آدمی، جس نے بھٹو کی ایک تقریر پر ’’ادھر ہم،اْدھرتم‘‘ کی سرخی جمائی اور سیاسی لیڈر کے عزائم واشگاف کر دیے تھے۔ سعید اظہر میرے پاس آ کر بیٹھ جاتے اور بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ فرمائش کرتے کہ نیو ز ایڈیٹر بنا دیے جائیں۔ حال یہ تھا کہ اخبار کی شفٹ ختم ہونے سے گھنٹہ دو گھنٹے پہلے ہی دفتر سے چلے جاتے۔ مسلسل بدپرہیزی اور بے احتیاطی نے قوتِ عمل محدود کر دی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی اس مجبوری کا دوسروں کو ادراک ہونا چاہئیے۔ ایک دو بار شاہ صاحب مرحوم سے بات چھیڑی تو انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ کم گو آدمی نے ایک بار صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا: کیا کوئی ایسا نیوز ایڈیٹر تم نے دیکھا ہے، جوکاپی کے پریس جانے سے پہلے ہی گھر کی راہ لے۔ گھر نہیں، سعید اظہر لارنس گارڈن جایا کرتے۔ تازہ ہوا میں سانس لینے اور دل بہلانے کے لیے۔ دنیا سعید اظہر کے لیے اجنبی تھی اور وہ دنیا کے لیے اجنبی۔ کیسے کیسے لعل و گہر، ماحول کی ناسازگاری سے مٹی میں مل جاتے ہیں۔ ایک غیر مہذب اور منتشر معاشرہ، جہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ جنیدِ بغدادیؒ نے کہا تھا: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ سعید اظہر کو اس کا ادراک کیوں نہ ہو سکا۔ اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو مشکل تھی۔ وہ ٹال جاتے، طرح دے جاتے۔ کشادہ صحن، اجلے کمروں اور صاف بستروں والے شاہ عبدالمعالی ؒ ہاسٹل میں ایک صبح سو کر اٹھا تو ساتھ والے بستر پر سعید اظہر کی بجائے کوئی اجنبی سویا پڑا تھا۔منفرد گندمی چہرہ، گھنے سیاہ بال اور ایک عجیب و غریب کشش کا حامل۔ معاً وہ جاگ اٹھا اور کہا ’’میرا نام عباس اطہر ہے۔‘‘ قیاس ہی کیا جا سکتا تھا کہ اس شب اپنے گاؤں جانے کی بجائے جو شہر سے دس پندرہ کلومیٹر کی مسافت پہ واقع تھا، انہوں نے سعید اظہر کے بستر پہ آسودہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ خود سعید اظہر نے وہ شب کہاں بتائی، ان سے پوچھنے کی جسارت کی اور نہ انہوں نے بتانے کی زحمت گوارا کی۔ رومان پسندوں کی یہ نسل ایسی ہی تھی۔زمانے سے بے نیاز اور کبھی کبھی تو خود اپنے آپ سے بھی۔ مہمان سے ناشتے کا پوچھا۔ ’’کیپسٹن کا ایک سگریٹ اور چائے کی ایک پیالی‘‘ انہوں نے کہا۔ میں نے کہا: یہ تو مشکل ہے۔ یہاں تو صرف ایک باقاعدہ ناشتہ مل سکتاہے۔ اس پر وہ شرما کر خاموش ہو گئے۔ بھاگتا ہوا میں گیا۔ قریب کے ایک سستے سے ریسٹورنٹ سے ایک شامی کباب، ڈبل روٹی کے دو سلائیس اورسگریٹ کا آدھا پیکٹ خرید کر لایا۔ یہ ایک رفاقت کا آغاز تھا، جو اگلے چالیس برس تک قائم رہی؛اگرچہ نشیب و فراز آئے لیکن الفت اور انس کا عنصر ہمیشہ برقرار رہا۔ نیوز روم کے باب میں کتنی ہی چیزیں شاہ صاحب سے سیکھیں۔مدتوں بعد کسی درویش سے ان کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ایک ایسا تردماغ، جس کے ذہن میں ہمیشہ موجود رہنے والی ترازو گڑی ہے۔ شاہ صاحب کی شخصیت پر اس سے زیادہ جامع تبصرہ شاید ممکن نہ ہو۔ ان میں ایک اخبار نویس کے اعلیٰ ترین اوصاف پائے جاتے تھے۔ ہر چیز کو وہ اپنے ترازو سے تولتے اور حکم لگانے میں کم ہی تاخیر کرتے۔ خبر پہ سرخی جماتے تو دیکھنے والے اش اش کر اٹھتے۔ ایک بار کسی نے ان سے کہا: شاہ صاحب، آپ نے شاعری کیوں چھوڑ دی۔ جواب دیا: میں نے پیشہ اختیار کر لیا۔ اب اخبار میں شاعری کرتا ہوں۔بامِ عروج پر، جب اس کا ایک ایک سانس فلمایا اور بیچا جاتا، مسافت کی تاریکی میں سلطان راہی کو ڈاکوؤں نے قتل کر ڈالا۔شاہ نے سرخی جمائی ’’سلطان راہی راستے میں مارا گیا‘‘۔ اب ان کی یاد آئی ہے تو ایسے کتنے ہی عنوان جگمگا اٹھے ہیں۔ شاہ صاحب کالم بھی لکھا کرتے۔ستائیس برس ہوتے ہیں، وہ ایک اخبار کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے،ان کے خلّاق ذہن نے جس کا چہرہ جگمگا دیا تھا۔دو گنا تنخواہ پر ایک دوسرے اخبار نے انہیں کالم نگاری کی پیشکش کی۔ ایک آدھ جملے میں بات نمٹا دینے والے آدمی نے کہا ’’کالم کیا ہوتا ہے؟ میں نیوز روم کا آدمی ہوں۔ کوئی بدقماش لیڈر ہتھے چڑھ جائے تو چار کالمی سرخی کے نیچے دفن کر سکتا ہوں۔ زائد تنخواہ کے لیے کیا کوئی پولیس افسر تھانے کا محررہو جائے گا؟ شاہ صاحب صحافت کی قوت سے خوب واقف تھے اور موقع ملتا تو قلم کو شمشیر بنا دیتے۔ صدر فاروق لغاری نے ایک بار ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کے خیال میں بے نظیر حکومت برطرف کر کے وہ احسان فراموشی کے مرتکب ہوئے تھے۔ مرحوم صدر نے اصرار جاری رکھا تو انہوں نے جواب دیا: چھٹی کا صرف ایک دن میسر آتا ہے، اگر آپ اس کی قیمت ادا کر سکتے ہوں تو تشریف لے آئیے۔‘‘ وہ ایسے ہی تھے۔ فیصلہ کن، یکسو اور واضح۔ سعید اظہر برعکس تھے۔ لا تعلق، بے نیاز اور کبھی کبھی تو بے زار بھی۔ ان کی کہانی کا اگر کوئی عنوان ہو سکتاہے تو یہ کہ بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں۔(جاری)