حالیہ قومی اہمیت کے معاملات میں جن کے محرکات بین الاقوامی ہیں کی بنا پر پاکستان کی سبکی تو ہوئی ہے لیکن اس سے زیادہ خان صاحب کا انداز حکمرانی طشت از بام ہو گیا ہے۔حال ہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے بھارت سے چینی، کپاس اوریارن کی درآمد کھولنے کے فیصلے اور بعد میں کابینہ کی طرف سے اسے مسترد کیے جانے سے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ فیصلے کب، کہاں اور کیسے ہوتے ہیں۔ اسی قسم کی بوالعجبیوں کا مظاہرہ، وزیراعلیٰ پنجاب کے فیصلوں سے بھی ہوتا ہے۔ چند روز قبل یہ خبر آئی کہ پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب کا الگ سیکرٹریٹ ختم کر دیا ہے اور چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کی واپس ٹرانسفر کر دی گئی ہے۔جس پرجنوبی پنجاب صوبے کی بنیاد پر اپنی سیاست چمکانے والے مخدوم خسروبختیار روتے روتے وزیراعظم کے پاس پہنچے اور دہائی دی کہ اس سے تو بیڑہ ہی غرق ہو جائے گا۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو فوری طور پرکہا گیا کہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، پھرانہوں نے خسرو بختیار سے ملاقات میں ایسا ہی کیا۔ "وسیم اکرم پلس" نے یقین دلایا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو رول بیک نہیں کیا جائے گا، انہوں نے جنوبی سیکرٹریٹ ختم کرنے کے آرڈر کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تکنیکی غلطی کی بنا پر ہوا ہے۔ گویا کہ دوررس قومی اہمیت کے بڑے فیصلے جس طرح کیے جا رہے ہیں اس پر ناقدین کا یہ الزام غلط نہیں لگتا کہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے اور ملک کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے۔ بھارت سے تجارت کے حوالے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کی حالت سو پیاز اور سو جوتے کھانے والی ہے۔ مثال کے طور پر حماد اظہر نیوزیرخزانہ بننے کے پہلے روز ہی بڑے طمطراق سے یہ اعلان کیاکہ بھارت سے چینی، کپاس اور دھاگہ درآمد کیے جائیں گے، جس پر سٹیک ہولڈرز کے کان کھڑے ہوئے اور اگلے ہی روز وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا، سوال یہ ہے کہ سٹیک ہولڈرز سے مشورہ کیے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیونکر کیا گیا۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم کو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ رولز آف بزنس کے مطابق ای سی سی کا ایجنڈاوزیراعظم کی منظوری کے بغیر جاری نہیں ہو سکتا، وزارت تجارت کا قلمدان بھی وزیراعظم کے پاس ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ وزیراعظم اپنی علالت کی بنا پر ایجنڈے کے اس آئٹم کے محرکات پر زیادہ غور نہ کر سکے ہوں، تاہم زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ مشیر تجارت رزاق دائود نے بھی اس ضمن میں وزیراعظم کو آن بورڈ لینے کی زحمت گوارا نہیں کی اس پر مستزاد یہ کہ وزیراعظم کی اپنی بیوروکریسی نے بھی اس بارے میں کوئی نشاندہی نہیں کی۔ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان آخر کس مرض کی دوا ہیں۔ کیا وہ محض "پاورپلے" میں مصروف رہتے ہیں۔ بہرحال اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے اور جو لوگ بھی مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں خمیازہ بھگتنا چاہیے۔ بھارت اپنے آئین کے نام نہادآرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری ہڑپ کر چکا ہے، اس کے غاصبانہ اقدام کی واپسی تک بھارت سے تجارت کی پاکستان کو کوئی ضرورت نہیں۔ اس صورتحال سے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں، ایک تو انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں دہائی دی کہ یہ پاکستان کے دیرینہ موقف کی خلاف ورزی ہے اور اس بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے وزارت خارجہ کو آن بورڈ نہیں لیا گیا لیکن اس سے بڑھ کر انہوں نے پاکستان میں بھارت مخالف لابیوں کو بھی خوش کر دیا جو اس فیصلے پر چیں بچیں تھیں کہ بھارت کے ساتھ کیوں دوستی کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ جہاں تک شیریں مزاری اور شیخ رشید کے احتجاج کا تعلق ہے وہ قابل فہم ہے کیونکہ وہ اس لابی سے تعلق رکھتے ہیں جو بھارت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات رکھنے کے مخالف ہیں۔ عین اس موقع پر جب بھارت سے سفارتی تعلقات کی بحالی پر بحث چھڑی ہوئی ہے، وزارت خارجہ نے یہ پالیسی بیان دیا ہے کہ قومی سلامتی کے نظریے پربھی ازسرنو غور کیا جا رہا ہے جس کے مطابق اقتصادی سلامتی بھی خارجہ پالیسی کا محور ہوگی۔ گویا کہ زاہد حفیظ چودھری جواس حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے کے مطابق فوکس جیو پالیٹکس سے جیو اکنامکس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس قسم کی بات جنرل کیانی کے دور میں جی ایچ کیو کے ایک مجلے میں بھی کی گئی تھی جس کے جواب میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھرپور تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مقالہ لکھنے والے افسر کی ذاتی رائے ہے، پاک فوج کی نہیں۔ کچھ بھی کہا جائے لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے فوج ایک بنیادی سٹیک ہولڈر ہے اور رہے گی۔ اگر بھارت سے تجارت کی بحالی جیسے کلیدی فیصلے فوج سے مشورہ کیے بغیر کیے جائیں گے تو بیل کیسے منڈے چڑھ سکتی تھی۔ عمران خان اپنی پانچ سالہ دورحکومت کی نصف سے زیادہ مدت پوری کر چکے ہیں۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ اپوزیشن میں باہمی اختلافات کی وجہ سے اس کی حکومت مخالف تحریک ٹھس ہوگئی ہے۔ اس وقت آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے محض اخلاقیات پر لیکچر دینے اور کچھ وزیروں کو اِدھر سے اْدھر کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ گورننس کے بارے میں اپنے نظریات پر وقت ضائع کیے بغیر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کرپشن اور احتساب کے نام پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ اپنے پرانے ساتھیوں کے خلاف انتقام کی روش کو ترک کرنا ہوگا اور اس حوالے سے نہ صرف غیر سیاسی اور ناتجربہ کار مشیروں کو فارغ کرنا ہوگا بلکہ اپنے گرداعلیٰ بیوروکریسی میں بھی تبدیلی ضروری ہے۔