لوگ کہتے ہیں مرا زہرہ جلال اچھا ہے صرف اچھا ہی نہیں ہے وہ کمال اچھا ہے کتنا دشوار ہے لوگوں سے فسانہ کہنا کس قدر سہل ہے کہہ دینا کہ حال اچھا ہے یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ حال پوچھنے والے بندے کو بے حال کردیتے ہیں۔ بعض جگہ تو یہ عمل اچھا لگتا ہے کہ اس نے پوچھا جناب کیسے ہو‘ اس خوشی کا حساب کیسے ہو۔ کبھی کوئی آپ کو لاجواب بھی کرسکتا ہے۔ جب کہا میں نے کہ رہتا ہے مجھے تیرا خیال۔ وہ بھی ساختہ بولا کہ خیال اچھا ہے۔ میں نے سوچا کہ سیاسی باتوں سے پہلے کچھ ادبی تمہید ہو جائے۔ آصف شفیع نے قطر سے لکھا کہ وہ اسی شعری انداز کے باعث میرا کالم حرز جاں کرتے ہیں۔ ویسے میں نے کرنل محمد خاں کی بجنگ آمد میں یہ اسلوب دیکھا تھا کہ ان کی تحریر میں غالب ہی چھایا ہوا ہے۔ ادبی نثر کی ایک ثمال گل کے ناول’’ جنت کی تلاش‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ویسے تو مشتاق احمد یوسفی کے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے۔ چلیے چھوڑیئے ادب کو۔ ابھی میں ایک چھوٹے بچے کی باتیں سن رہا تھا۔ ایک سوال پر اس نے کہا ہاں شیر کو بھی پکڑا جا سکتا ہے‘ پوچھنے والے نے کہا کیسے۔ بچے نے کہا جال پھینک کر۔ مندرجہ بالا بات سے مجھے ن لیگ کا خیال آیا لیکن یہ شیر آٹا کھا گیا تھا مگر خان صاحب کی حکومت میں لوگ یہ بات بھول گئے۔ موجودہ صورتحال نے تو بہت کچھ بھلا دیا۔ ایسی حشر سامانی ہے کہ کچھ نہ پوچھئے۔ رام ریاض یاد آ گئے: میں اندھیروں کا پجاری ہوں میرے پاس نہ آ اپنے ماحول سے عاری ہوں میرے پاس نہ آ مزے کی بات تو یہ ہے کہ نیچے تک سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ بزدار صاحب فرما رہے ہیں کہ اب ہر محلے میں ترقی نظر آئے گی۔ حالانکہ اب لاہور کے گلی محلوں میں گندگی کے ڈھیر لگ گئے ہیں ۔ میرا خیال ہے شاید وہی فیض صاحب کی بات سچ ہوئی کہ ہم دیکھیں گے۔ یعنی وہی حشر کے دن جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی اور دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی: رات کی اہمیت سمجھتے ہیں بات جو کل یہ ٹال دیتے ہیں وزیراعظم نے اپنے مشیروں کو اچھا مشورہ دیا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کو کوئی جواب نہ دیں بلکہ سارے وزیر مشیر اب کارکردگی دکھائیں۔ واقعتاً کارکردگی نظر آنی چاہیے‘ جیسے کہ انصاف کے بارے میں ہے کہ ہوتا ہوا نظر آئے۔ ویسے پی ڈی ایم کو جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں رہ گئی۔ وہ تو آپس میں سینگ پھنسائے بیٹھے ہیں اور حکومت کو سکھ کا سانس لینے کے لیے وقفہ میسر آیا ہے۔ مزے کی بات تو پی پی کے رہنمائے اعظم نے کہی کہ پی ڈی ایم بنائی ہی پیپلزپارٹی نے تھی گویا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ اب یہ مجھ سے میری پہچان طلب کرتے ہیں۔ میں جب آیا تھا یہاں تازہ ہوا لایا تھا۔ مجھے مگر سلیم کوثر کی مشہور غزل کا مطلع یاد آ رہا ہے: میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے ویسے یہ بات کہ پی پی نے پی ڈی ایم بنائی سوچ کے در کھولتی ہے۔ یہ تو ایک اعتراف ہے ۔ان کو پی ڈی ایم بنانے کا خیال کیسے آیا۔ ان کی ساری حرکات بتا رہی ہیں کہ وہ ایک ایجنڈے کے تحت روبہ عمل تھے۔ بظاہر تو یہ بچوں کا کھیل لگتا ہے کہ آپ کو یاد ہوگا کہ بچے شٹاپو بناتے تھے اور بعد میں لکیریں مٹاتے ہوئے کہتے ہاتھوں سے بنایا تھا پیروں سے مٹایا ہے۔ اس عمل میں بہت جوش اور خوشی ہوتی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ پیپلزپارٹی کے خیال میں پنجاب میں سینیٹرز کے معاملہ میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین پرویزالٰہی نے معاملہ طے کیا اور اس سے پہلے نوازشریف کو باہر بھیجنے کا عمل گویا پیپلزپارٹی اسی ذرا سی بے وفائی کا جواز بتا رہی ہے۔ حالانکہ انہیںغبارے کو پنکچر کرنا ہی تھا۔ سچی بات یہ کہ سب کچھ سب کو پتہ تھا۔ ترے وعدے پر جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا۔ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ پیپلزپارٹی کے پاس جو کچھ تھا‘ اسے بچا لیا گیا۔ پنجاب میں ان کا کچھ نہیں۔ کاش وزیراعظم کو انہیں اچھی ٹیم مل جاتی۔ اب آخر میںذراغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا ذکر ہو جائے کہ یہ ٹرسٹ گزشتہ 28 سال سے ملک کے پسماندہ علاقوں میں علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ 35 اضلاع میں 650 سکول ایک لاکھ سے زائد طلباء و طالبات کو علم سے بہرہ مند کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی میں سید عامر محمود کی کاوشوں پر زیادہ ہی حیران ہو جاتا ہوں۔ وہ ویسے بھی خوش شکل اور خوش گفتار ہیں۔ پھرصالح کردار بھی ان کا ہے۔ میں تفصیل میں کبھی لکھوں گا۔ ویسے میں الخدمت‘ اخوت‘ فائونڈیشن اور غزالی ٹرسٹ پر صرف لکھتا ہی نہیں‘ الحمدللہ ان کا ڈونر بھی ہوں۔ یہ تنظیمیں اللہ پاک کی رحمت ہیں۔ غزالی ٹرسٹ معذور بچوں کو بھی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے اور یتیم بچوں کو بھی۔ اب کے تو سید عامر محمود کو کارکردگی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ نورالہدیٰ خاص طور پر گھر آیا تھا۔ نورالہدیٰ عامر محمود کا دست راست ہے۔ وہ جنگلات کے محکمے میں سبطین شاہ کے ساتھ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ جنگلات میں بہتری آ رہی ہے وگرنہ میں تو یہی سمجھا تھا کہ جنگلات ختم ہو چکے۔ چلیے سید عامر محمود کو ایوارڈ پر مبارکباد دیتے ہیں مگر جو وہ کام کر رہے ہیں اس کا اجر اللہ کے پاس ہے اور بے انتہا ہے: جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں