میڈیا کے ساتھ خوشگوار مراسم میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیرِ اعظم خود ہیں۔ صحافت اور صحافیوں کو وہ زیادہ پسند نہیں کرتے۔کیوں پسند نہیں کرتے، اس پر پھر کبھی۔ بریگیڈئیر عاصم سلیم باجوہ سے پہلی ملاقات راولپنڈی کے واحد پانچ ستارہ ہوٹل میں ہوئی۔ایک آدھ دن کی چھٹی لے کر میدانِ جنگ سے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیرستان میں قبائلیوں کی معاشی بحالی کے لیے فوج نے کون کون سے منصوبے پروان چڑھائے۔ سان گمان میں بھی تب نہ تھا کہ ایک دن فوج کے محکمہ تعلقات عامہ سے وابستہ ہو کر اس کی جون ہی بدل ڈالیں گے۔ فقط لہجے کی شیرینی ہی نہیں، اس خیال سے اخبار نویس کو مسرت ہوئی کہ ان کا تعلق رحیم یار خان کی باجوہ فیملی سے ہے۔ ہمارے سب سے پرانے اور سب سے اچھے پڑوسی۔ میرے عزیز دوست سعید باجوہ کے عم زاد، جنہیں دنیا کا سب سے اچھا برین سرجن کہا جاتا ہے۔ باجوہ ایک غیر معمولی آدمی ہیں۔ 2016ء میں جنرل قمر باجوہ نے فوج کی قیادت سنبھالی تو اپنے دو ساتھیوں کے بارے میں ان کے شدید تحفظات تھے۔ جنرل رضوان اور جنرل عاصم باجوہ۔ عاصم باجوہ آئی ایس پی آر اور جنرل رضوان آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ اتفاق سے وہ باہم بے تکلف دوست بھی ہیں۔ جنرل رضوان کو تو انہوں نے چلتا کیا۔ جنرل عاصم باجوہ کو بھی ایک عام سی ذمہ داری سونپ دی۔ حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، جب چند ہفتے بعد ہی عاصم باجوہ جنوبی کمان کے سربراہ بنا دیے گئے۔ہر فوجی سربراہ کی سرپرستی انہیں حاصل رہی۔ اس لیے کہ وہ بے حد محنتی، مرتب او رذہین آدمی ہیں۔ بہت سے ذہین اور ذکی لوگ بھی زندگی میں ناکام ہوتے ہیں لیکن جنرل عاصم باجوہ کی حیات میں ناکامی کا باب کوئی نہیں۔اس لیے کہ عام قومی مزاج کے برعکس ان میں بے حد لچک پائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ مٹی کی بجائے وہ موم سے بنے ہیں۔الجھنے کی کوئی کوشش کرے تو طرح دے جاتے ہیں اور نگاہ ہدف پہ رکھتے ہیں۔ دل کی بات کسی کو بتاتے نہیں اور تصادم کی نوبت آنے نہیں دیتے۔ ایک کالم نہیں، ایک طویل خاکے ہی میں وہ بیان کیے جا سکتے ہیں۔ وزارتِ اطلاعات کے لیے عاصم سلیم باجوہ کا انتخاب کس طرح ہوا۔ اس کی بنیاد وزیرِ اعظم عمران خان سے ان کی پہلی ملاقات میں رکھ دی گئی تھی۔ وہ ان میں سے ایک ہیں، جس طرح کے لوگوں کو خود پسند وزیرِ اعظم عزیز رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بظاہراچانک برطرف ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔تعجب ان کی برطرفی نہیں، تقرر پر ہونا چاہئیے۔پارٹی کارکنوں کے لیے وہ کبھی قابلِ قبول نہ تھیں۔ میڈیا نے اس لیے گوار ا کیا کہ ان کے پیش رو فواد چوہدری ہمیشہ صحافیوں کی ناک رگڑنے پہ تلے رہتے۔ فواد چوہدری وزیرِ اعظم کے اس تصور سے مکمل طور پر متفق تھے کہ میڈیا ایک شکن آلود ملبوس کی طرح ہے، گرم استری کے بغیر جو سیدھا نہیں ہوسکتا۔ شریف خاندان کے طویل اقتدار میں میڈیا خوب پھلا پھولا۔ چند ایک مستثنیات کے علاوہ،نجم سیٹھی،ملیحہ لودھی اور میر شکیل الرحمٰن جن میں شامل ہیں، جاتی امرا نے ہمیشہ نوازشات کی بارش کی۔ نجم سیٹھی، ملیحہ لودھی اور میر شکیل الرحمٰن کو بھی بعد میں ہموار کر لیا۔چند ابتدائی تجربات کے بعد انہوں نے دریافت کر لیا تھا کہ میڈیا اور عدالتوں سے الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔انہیں برتنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ شریف خاندان اب شاید کبھی اقتدار میں نہ آسکے۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو عدالتیں مسترد کر چکیں۔ شہباز شریف کے پورے خاندان پر کالا دھن سفید کرنے کے اتنے بے شمار مقدمات ہیں کہ دلدل سے باہر نکلنا ایک معجزہ ہوگا۔ ادھر نیب والے ہیں، ادھر بھتیجی جان کو اٹکی ہیں کہ کسی طرح شاہد خاقان عباسی کو پارٹی کا صدر بنا دیں۔ شہباز شریف کیسے ہی ٹارزن ہوں، ووٹ نواز شریف کے ہیں۔ حالات سازگار ہونے پر بڑے میاں صاحب کی خواہش یہ ہوگی کہ پارلیمانی محاذ ان کے بھائی سنبھالیں اور سیاسی محاذ پر صاحبزادی سرگرم ہوں۔ مشہور محاورہ یہ ہے کہ دو فقیر ایک گدڑی میں سو سکتے ہیں مگر ایک محل میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے۔ دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے سے نبھاہ دی لیکن چچا بھتیجی میں نبھتی نظر نہیں آتی۔محترمہ مریم نواز کا مزاج ہمیشہ سے باغیانہ ہے اور شاید ہمیشہ رہے گا۔ انسان جیسے پیدا ہوتے ہیں، ویسے ہی دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ باطنی تغیر شاذ ہی رونما ہوا کرتا ہے۔ اپنے تجزیے پرنہیں، عام لوگ اپنی افتادِ طبع پر جیتے ہیں۔ سرکارؐکے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ احدپہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتاہے مگر عادت نہیں۔ کیاشبلی فراز اور عاصم باجوہ حکومت کے ساتھ میڈیا کے بگڑے مراسم کو بہتر بنا سکیں گے؟ مشکل ہے، بہت مشکل۔ وہی بات مصحفی ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا یہ رفو گری تقریبا ناممکن ہے۔ فردوس اعوان کی برطرفی پر سبھی نے ایک سا جشن منایا۔ اسی طرح شبلی فراز کا میڈیا کے تمام قابلِ ذکر لوگوں نے خیر مقدم کیا۔ ایوانِ وزیرِ اعظم میں بہت دن سے یہ سوال زیرِ بحث تھا کہ فردوس عاشق اعوان سے چھٹکارا پانے کے بعد یہ منصب کس کو سونپا جائے۔ہوشمند اسد عمر کی رائے یہ تھی کہ سامنے تو ایسا ایک چہرہ چاہئیے جو تحریکِ انصاف کی تصویر ہو۔ اس کا ہاتھ بٹانے کے لیے کسی ایسے ہنر مند آدمی کی ضرورت ہے، جو کانٹوں کی فصل کاٹ سکے۔عاصم باجوہ کا نام سامنے آتے ہی فوراًاتفاق رائے ہو گیا۔ اخبار نویسوں کے مطابق کامیابی کا انحصار اس ایک نکتے پر ہے کہ کیا شبلی فراز اور جنرل عاصم باجوہ میں ہم آہنگی پیدا ہوگی یا نہیں۔ جہاں تک ان دونوں کو میں جانتا ہوں، اختلاف اور تصادم کا اندیشہ کم ہے۔ عاصم باجوہ بدترین حالات میں بھی بروئے کار آسکتے ہیں۔ وہ خود کو سنبھالے رکھتے ہیں۔ موقع محل کے انتظار میں رہتے ہیں،تلخ گفتاری سے گریز کرتے اور ہر حال میں ہمیشہ اپنی اولین ترجیح کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے وہ کئی طوفانوں سے سلامت گزرے ہیں۔ میڈیا کی اہم ترین شخصیات سے ان کے ذاتی مراسم ہیں۔ ان مراسم میں وہ خلل پڑنے نہیں دیتے۔ ان کا لڑکپن نا مسائد حالا ت میں گزرا ہے، جب خاندان پر ایک افتاد آپڑی تھی۔ یہ ان کی زندگی کے تشکیلی مہ و سال تھے۔ زندگی کرنے کا ہنر انہوں نے سیکھ لیا۔ انسانوں اور مواقع کو برتنے کا اور اس میں کم لوگ ان کے ثانی ہوں گے۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ پچھلے بیس برس میں بری فوج کے چاروں سربراہوں کی سرپرستی انہیں حاصل رہی۔ جنرل پرویز مشرف کی کتاب "in the line of fire"کے مولف وہی ہیں۔ کپتان اور شبلی فراز نے اگر انہیں آزادی ء عمل عطا کی توممکن ہے کہ بعض پیچیدہ مسائل وہ حل کر ڈالیں۔ میڈیا کے ساتھ خوشگوار مراسم میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیرِ اعظم خود ہیں۔ صحافت اور صحافیوں کو وہ زیادہ پسند نہیں کرتے۔کیوں پسند نہیں کرتے، اس پر پھر کبھی۔