6 ستمبر کو یوم دفاع کے موقع پر جی ایچ کیو میں یوم شہدا کی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ویسے تو ہر بار ہی یہ تقریب پروقار ہوتی ہے اور عقیدت واحترام سے منائی جاتی ہے۔ جیسا کہ ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا زندہ قوموںکا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہیدوں اور غازیوں کو یاد رکھتی ہیں، اس مرتبہ جی ایچ کیو میں ہونے والی تقریب اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں نومنتخب وزیراعظم عمران خان مہمان خصوصی تھے نیز ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ عمران خان کی اہلیہ مکمل پردہ دار خاتون ہوتے ہوئے فرسٹ لیڈی کا رول ادا کر رہی ہیں۔ مجھے اس سے پہلے بھی متعدد بار یوم شہداء کی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا لیکن نواز شریف کبھی بطور وزیراعظم اس میں شریک نہیں ہوئے یا تو انھیں مدعو ہی نہیں کیا گیا یا وہ فوجی قیادت سے اپنے مخصوص رویئے کے پیش نظر خود ہی پہلو تہی کرتے رہے۔ تقر یب میں وزراء بالخصوص وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خزانہ اسد عمراپنی بیگمات کے ہمراہ، وزیراطلاعات فواد چوہدری اور بعض ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ صحافی بھی شریک تھے۔ شہداء کے لواحقین جن کے اعزاز میں یہ تقریب تھی کثیر تعداد میں مدعو کیے گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف خاموشی سے آخر میں تقریب میں آئے۔ ان پر بہت کم کیمرہ پڑا لیکن وہ خاصے ٹینس نظر آ رہے تھے ان کے مقابلے میں بلاول بالکل ریلیکس تھے ان کی آمد پر کچھ حاضرین نے تالیاں بھی بجائیں وہ حاضرین اور فوجی بھائیوں سے گھل مل رہے تھے اور کئی مہمانوں نے ان کے ساتھ سلفیاں بھی بنوائیں۔ ویسے تو ہمیشہ کی طرح تقریب فوج کے روایتی نظم و ضبط کے تحت انتظامی طور پر بہت منظم اور پروقار تھی لیکن گرمی اور حبس کی بنا پر اکثر مہمان بالخصوص خواتین اپنے دعوتی کارڈز کو پنکھے کے طور پر استعمال کرتی رہیں جبکہ پیڈسٹل فین صرف سامنے کی صف کے لیے لگائے گئے تھے۔ مہمانوں کو بلا تکلیف آرام سے بٹھانے کے لیے فوجی جوان اور خواتین خاصے مستعد تھے تاہم دیکھنے میں آیا کہ جب تقریب ختم ہوئی تو واپسی کے راستے پر دھکم پیل کا سماں تھا اور کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ واپسی کے سفر کو بھی آمد کی طرح ہی سہل بنایا جائے تاکہ مہمانوں بالخصوص خواتین اور بچے پریشانی سے بچ سکیں۔ جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے انھیں بھی بڑے اہتمام سے بٹھایا گیا لیکن انھیں وی آئی پیز سے بہت دور رکھا گیا کہ وہ اپنے منصبی فرائض کے لیے بھی قریب نہ پھٹک پائیں۔ اتفاق سے یوم دفاع کی ٹائمنگ اہم تھی اس سے ایک روز قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ایف ڈنفورڈ اسلام آبادکاچند گھنٹے کا دورہ کر کے دہلی گئے تھے۔ اس دورے کے بارے میں خدشہ تھا کہ بڑے سخت اور بے نقط مطالبات کیے جائیں گے لیکن خلاف توقع نسبتاً دوستانہ ماحول میں مذاکرات ہوئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو لالی پاپ دیا گیا کہ واشنگٹن آ کر مذاکرات کریں۔ اس دعوت پر وہ پھولے نہیں سما رہے تھے۔ امریکہ نے اپنی جاری کردہ سرکاری روداد میں یہ بات کہی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کو دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے لیکن عین اس روز 6 ستمبر کو بھارتی زعما کے ساتھ مذاکرات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے علاقے سے دہشت گردوں اور ان کے پراکسی کودوسرے ممالک میں کارروائیوں سے باز رکھے۔ دونوں وفود نے دوطرفہ تعلقات کے گزشتہ برس کے ڈائیلاگ کے میکنزم کی کامیابی کو بھی سراہا جس کے مطابق القاعدہ، داعش، لشکرطیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین، حقانی نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ڈی کمپنی اور ان سے منسلک تنظیموں کے خلاف کا میابی سے اقداما ت کیے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ اور بھارت کا ان تمام تنظیموں اور گروپوں کے بارے میں مسلسل یہی استدلال رہا ہے کہ یہ پاکستان سے ہی اپنی مذموم کارروائیاںکرتے ہیں۔ غالباً اس نکتے کا عمران خان نے اپنی تقریر میں دو ٹوک انداز سے جواب دیا کہ پاکستان اب کسی کی جنگ نہیں لڑے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ماضی میں طالبان سے مذاکرات کی باتیں کرتے رہے ہیںلیکن پاکستان اب وہی جنگ لڑے گا جو پاکستان کی جنگ ہو گی۔ وزیراعظم نے وطن عزیز میں سول ملٹری تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ فوج اور سویلین حکومت میں کوئی تنازع نہیں ہے۔ بات بھی درست ہے ابھی تو اس حکومت کو اقتدار سنبھالے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، امید ہے کہ نئی سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان ’ہنی مون‘ پورے پانچ سال چلتا رہے گا۔ شروعات اس لحاظ سے اچھی ہیں کہ وزیراعظم مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کو ساتھ لے کر چلیں اور فوج بھی بارہا جمہوریت اور جمہوری اداروں کی فعالیت کا اعتراف کرتی رہی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنی تقریر میں جمہوری اداروں کے فروغ کا ذکر کیا ہے۔ خان صاحب نے اپنی فی البدیہ تقریر جس میں انٹیلی جنس اداروں کا ذکر بھی کیا‘ بڑے اچھے انداز میں کی۔ پاک فوج کی قربانیوں اور خدمات کو سراہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج واحد ادارہ ہے جہاں میرٹ کی عملداری ہے جہاں سیاست گری نہیں ہے۔ ’جس کا کام اسی کو ساجھے‘ کے اصول کے تحت توخان صاحب کے رشحات فکرسے قطعاً اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن وطن عزیز میں ماضی میں فوجی قیادتوں اور سیاستدانوں نے جس طرح سیاست کھیلی ہے وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ وطن عزیز کے قیام کے بعد قریباً آدھی مدت مارشل لاؤں، فوجی حکومتوں اور نیم فوجی ادوار میں گزری۔ طالع آزما حکمرانوں کے علاوہ سیاسی قیادتوں نے بھی خوب ہاتھ رنگے۔ اس معاملے میں اعلیٰ عدالتوں کا کردار بھی قابل فخرنہیں تھا۔ لہٰذا خان صاحب کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں ایک طرف میرٹ نہ ہونے کی وجہ سے ادارے تباہ ہوئے وہاں دوسری طرف سیاست میں اخلاقی اقدار کا بھی جنازہ نکل گیا ۔ ماضی میں طالع آزماؤں نے گھناؤنا رول ادا کیا۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میںسیاسی روایات کو بدترین انداز میں روندا گیا۔ اقتدار کے بھوکے سیاستدان ان کے سامنے کورنش بجالاتے رہے اور آج بھی صورتحال کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ خود خان صاحب اسی قسم کے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے سیاسی بیٹروں کوساتھ ملا کر حکومت میں آئے ہیں لیکن تاریخ نے ان کو اس موڑ پر کھڑ اکردیا ہے جہاں بگڑے ہوئے نظام کو ٹھیک کرنے کا کام بھی انکے ذمے ہے۔ خوش قسمتی سے ان کو وہ فوجی قیادت میسر آئی ہے جو خود جمہوریت اور جمہوری اداروں پر کامل یقین رکھنے کی دعویدار ہے۔ یقینا انھیں اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے کسی قسم کی پاور سٹرگل میں نہیں الجھنا چاہیے اور فوجی قیادت کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔