لاہور ہائی کورٹ کے دو معزز ججوں نے آخرکار بیمار نوازشریف کے علاج کے لئے باہر جانے کا مسئلہ انتہائی احسن طریقے سے حل کر دیا اور پھر فیصلہ آ گیا۔ وفاق کے وکلاء کی طرف سے کچھ اعتراضات کئے گئے جنہیں عدالت خاطر میں نہ لائی۔ اب نواز شریف چار ہفتوں کیلئے علاج کرا سکیں گے اور ضرورت پڑی تو اس میں توسیع ہو سکے گی۔ شہباز شریف کی درخواست پر سماعت شروع ہوتے ہی عدالت نے ریمارکس دیے ،، ہم یہ معاملہ دونوں فریقوں کی رضامندی سے حل کرنا چاہتے ہیں،، اور پھر ایسے ہی ہوا، فیڈریشن نے بھی عدالت کے سامنے سر نگوں کیا اور کہا گیا،،، ہم تو صرف تحریری ضمانت چاہتے ہیں چاہے یہ عدالت عالیہ کو دیدی جائے۔ شہباز شریف نے چار لائنیں ہاتھ سے لکھ کرعدالت عظمی کے حوالے کیں۔ ٭٭٭٭٭ دونوں فریقوں کے مقاصد بھی پورے ہوگئے، میرے خیال میں اس سے پہلے دونوں کا موقف اپنی اپنی جگہ درست تھا، فرق صرف اتنا تھا ، عمران خان کی سمجھ میں کچھ ،، چیزیں،، دیر سے آئیں، اگر ان کی کابینہ کے با تدبیر اور ہوشیاروزراء نیوز چینلز کی اسکرینوں پر بیٹھ کر یہ ،، مبینہ راز،، منکشف نہ کرتے کہ شہباز شریف ،، کسی،، کے،، رابطے،، میں ہیں تو شاید وہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ والا،، ترپ کارڈ،، استعمال ہی نہ کرتے، ای سی ایل کا دروازہ پہلے تو ان کے جہاندیدہ وزیر داخلہ کو بھی نواز شریف کے لئے کھلا ہوا دکھائی دے رہا تھا ، یہ بہت حد تک درست ہے کہ اگر پہلے والے عدالتی احکامات کے مطابق نواز شریف لندن پہنچ جاتے تو ،، ڈیل،، کا الزام عمران خان کے سر ہی آنا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی’’مبینہ ڈیل‘‘ ہو بھی چکی تھی تو عمران خان کو اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہوگا، شہباز شریف ،، ہیرو،، قرار دیے جا رہے تھے اپنی بہو سمیت سب سے داد وصول کر رہے تھے، انہیں ،، گیم چینجر،، کا ایوارڈ مل رہا تھا، یہ مجموعی طور پر ن لیگ کی ایسی فتح ہوتی جس کے ،، ججوں،، سے وزیر اعظم لا علم ہوتے ، نواز شریف کا یہ فیصلہ بھی سیاسی طور پر بہت مضبوط تھا کہ عمران خان کو سات ارب روپے ادا کرکے لندن نہیں جانا،،،، اس سارے کھیل کے پس منظر میں مولانا فضل الرحمان نے اپنا کردار بخوبی انجام دیا، ،، انہیں بھی داد و تحسین،، کا حقدار تصور کیا جانا چاہئیے، ہم مولانا کو ان کی،، کامیابی،، پر مبارک تو دینا چاہتے ہیں مگر اس شرط پر کہ اب وہ عوام کی جان چھوڑیں، اب ادھر ادھر کے دھرنوں سے کوئی فائدہ نہیں، حکومت نے تو اسلام آباد دھرنا برداشت کر لیا۔ ٭٭٭٭٭ بیمار اور اسیر نواز شریف کے لندن جانے کے اصرار نے عمران خان حکومت کو بہت،، فائدے،، پہنچائے، سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ عوام کا دھیان اصل ایشوز سے ہٹ گیا ، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے ستائے ہوئے لوگوں کی ساری توجہ اس سوچ پر مرکوز ہوگئی کہ نواز شریف کو لندن جانے کی بلا مشروط اجازت ہونی چاہئیے یا نہیں، میڈیا کو ساری مہنگائی صرف ٹماٹر، ادرک، لہسن اور پیاز کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں میں ہی نظر آتی رہی، حالانکہ ان چاروں اشیاء کی قیمت مسور اور دال ماش کی قیمتوں سے اوپر نہیں گئی تھیں، جو لوگ دال خریدنے کی سکت نہیں رکھتے انہیں ادرک ٹماٹر سے کیا واسطہ؟ ٭٭٭٭٭ نواز شریف صاحب کی علالت پر عام آدمی کو کوئی شبہ نہیں رہا، سوائے چند حکومتی وزراء کے،،، کسی عام اور کسی خاص نے ان کی بیماری کا مذاق نہیں اڑایا بشمول جناب عمران خان، اگر عام لوگوں نے کوئی سوال اٹھائے تھے تو ان میں ایک طاقتور سوال یہ تھا کہ چلو اگر پلیٹ لٹس کو معمول پر لانے کا پاکستان میں کوئی علاج نہیں ہے اور پاکستان کے کسی ڈاکٹر کے قابو میں ان کے پلیٹ لیٹس نہیں آ رہے تو علاج صرف لندن میں ہی کیوں ؟ پھر ہارلے اسٹریٹ کا ہی انتخاب کیوں؟ کیا پوری دنیا میں لندن کے سوا کوئی اور جائے علاج نہیں، اگر کسی اور ملک کا انتخاب کر لیا جاتا تو شاید نواز شریف صاحب کی اس ،، خطرناک بیماری،، پر اتنی سیاست ہی نہ ہوتی اور حکومت کو آخری وقت میں ای سی ایل والا ورق ہی نہ کھولنا پڑتا، ایک اور بات جو ،، بیماری کی سیاست،، کے دوران سامنے آئی تو یہ ہے کہ پورے پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی عمران خان کی سیاست، ان کی حکومت اور ان کی وزارت عظمیٰ کے حق میں دکھائی نہیں دی بشمول چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کے، اور تو اور یہ بھی دیکھا گیا کہ خود پی ٹی آئی کے ووٹرز کی اکثریت بھی نواز شریف کو لندن بجھوانے کے حق میں تھی، قارئین کو یاد ہوگا کہ میں نے نواز شریف کی علالت سے بہت پہلے لکھنا شروع کر دیا تھا کہ عمران خان کو نواز شریف اور آصف زرداری کی بجائے اپنی توجہ عام عوام کی جانب مبذول کرنی چاہئیے، عمران خان کو ان کاموں کی طرف دھیان دینا چاہئیے جن کی تکمیل کے لئے لوگ ووٹ دے کر انہیں اقتدار میں لائے، میں اس تھیوری کو مکمل طور پر نہیں مانتا کہ عمران خان کو،،،، لایا،،،، گیا ہے، ان کے اقتدار میں آنے میں ،، کم از کم کچھ حصہ،، تو ووٹرز کا بھی تسلیم کیا جانا چاہئیے، اگر ان کو ووٹ نہ پڑتے تو حکومت کے پندرہ مہینے لوگ کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کرتے، عمران خان کی حکومت کے یہ مہینے جن تکالیف کے ساتھ لوگوں نے کاٹے اگر انہیں ووٹ نہ ملے ہوتے تو پھر مولانا فضل الرحمان والی بات بھی ممکن ہو سکتی تھی کہ لوگ انہیں وزیر اعظم ہاؤس سے خود ،،، گرفتار کر لیتے۔ ٭٭٭٭٭ پلیٹ لیٹس کی بیماری کے حوالے سے کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کا فرض میڈیا کو مجموعی طور پر انجام دینا چاہئیے تھا، نواز شریف صاحب کی بیماری کے حوالے سے خصوصاً اسی میڈیا نے حالات حاضرہ کے جتنے بھی پروگرام کئے، جتنے بھی بحث مباحثے ہوئے ان میں پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے لیڈر ہی مدعو کئے جاتے رہے، حالانکہ میرے خیال میں اخبارات اور نیوز چینلز کو متعلقہ طبی ماہرین کی جانب رجوع کرنا چاہئیے تھا اور ان سے تیاری کے ساتھ ایسے سوالات کئے جاتے جن سے عام آدمی یہ سمجھ پاتا کہ یہ بیماری حقیقت میں ہے کیا؟ اور کیا واقعی اس کا پاکستان بھر میں کسی ڈاکٹر کے پاس کوئی علاج نہیں ہے؟ دوسری غلطی ن لیگ اور نواز شریف کے لئے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کی جانب سے ہوئی، جب تک وہ اسپتال میں رہے ان کی صحت کے بارے میں عوام کو روزانہ بریفنگ میڈیکل بورڈ کی جانب سے دی جانی چاہئیے تھی، یہ فریضہ مریم اورنگ زیب یا کسی اور ن لیگی کو انجام نہیں دینا چاہئیے تھا، سچ مچ کے مریض نواز شریف کی بیماری کو ،، سیاسی بیماری،، میں ڈھالنے کی ذمہ داری سب فریقوں پر عائد ہوتی ہے، ،،،، خاموش طبی ماہرین،، نواز شریف کو بیرون ملک لے جانے کے ن لیگی اصرار پر مختلف تبصرے کرتے رہے، سینئر میڈیکل ایکسپرٹس اس خدشے کا بھی اظہار کرتے رہے کہ خدا نخواستہ کہیں نواز شریف کی بیماری نےauto immunکی شکل تو اختیار نہیں کرلی، اللہ نہ کرے کہیں میاں صاحب LEUKEMIA میں تو مبتلا نہیں ہو گئے، نواز شریف قوم کے لیڈر ہیں، عوام ان پر اپنا حق رکھتے ہیں، ان کی بیماری سے متعلق ،، سازشی تھیوریاں،، پھیلانے میں کون کون ملوث رہا؟ یہ ہاتھ بے نقاب ہونے چاہئیں۔۔۔۔