میرے کزن فاروق پراچہ بہت سوشل میڈیا فرینڈلی ہیں۔ انہوں نے آج نمازفجر کے بعد ایک ویڈیو وٹس ایپ پر بھیجی اور تاکید مزید کے طور پر کال بھی کی اور کہا کہ میں یہ ویڈیو ضرور دیکھوں۔ میں یہ ویڈیو دیکھتا اور سنتا گیا اور اس دوران آنسو ٹپ ٹپ میرے گالوں میں گرتے رہے۔ مجھے یقین نہیں آیا رہا تھا کہ کیا کوئی غم سے نڈھال بیوی اور ماں اتنی عظیم بھی ہو سکتی ہے۔ نیوزی لینڈ کی خاتون اینکر نے کرائسٹ چرج کی مسجد میں شہید ہونے والے نعیم رشید کی بیوہ اور شہید طلحہ کی ماں سے انٹرویو کیا۔ شوہر اور بیٹے کی یکبارگی موت کے صدمے سے تو ایک خاتون چکنا چور ہو جاتی ہے مگر یہ باہمت‘ بہادر اور صابر و شاکر پاکستانی خاتون نہایت کمپوزڈ رہی۔ اینکر کے سوالات کے جواب میں غمزدہ خاتون نے رواں دواں اور شستہ انگریزی میں کہا کہ میرے شوہر شروع سے ہی ایک بہادر شخص تھے۔ وہ محبت کرنے والے‘ دوسروں کے دکھ درد کو بانٹنے والے اور بیوی بچوں کا بہت ہی خیال رکھنے والے تھے۔ پاکستانی خاتون نے جب نیوزی لینڈ کی اینکر کو بتایا کہ ہمارے اللہ کا یہ حکم ہے کہ دوسروں کی جان بچائو اور میرے شوہر نے دوسرے نمازیوں کی جان بچانے ہی کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔ اینکر نے پوچھا کہ آپ کا اکیس سالہ بیٹا بھی تو شہید ہوا ہے۔ اس کا غم کیسے محسوس کرتی ہیں۔ طلحہ کی ماں نے جواب دیا بلا شبہ غم کی شدت سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مگر میرے اللہ نے مجھے حوصلہ دیا ہے اور جس طرح سے یہاں لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اس نے مجھے پہلے سے زیادہ مضبوط بنا دیا ہے۔ اس پر اینکر خود بہت جذباتی ہو گئی۔ اس نے غمزدہ پاکستانی خاتون سے پوچھا کہ کیا میں آپ کو گلے لگا سکتی ہوں۔ خاتون نے کہا کیوں نہیں اس پر اینکر بھرائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ انہیں گلے ملی اور تسلی دی۔ ایک طرف ساری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ‘ اظہار ہمدردی اور ان کی دل جوئی کی جا رہی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کے ساتھ جذباتی محبت رکھنے کے دعویدار اسلامی ملک پاکستان کہ جس کے اپنے بھی 9شہری کرائسٹ چرچ کی مساجد میں شہید ہوئے ہیں وہاں پی ایس ایل کے نام پر دھمالیںڈالی گئیں اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما کہ جن کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ بہت سیریس اور ریلیجس ہو گئے وہ ’’نچ پنجابن نچ‘‘ گاتے اس پر خود بھی ناچتے رہے اور سٹیڈیم میں بیٹھے ہوئے نوجوانوں کو بھی نچواتے رہے۔ اب ذرا دیکھیے کہ لیڈر شپ کیا ہوتی ہے۔ نیوزی لینڈ کی 38سالہ خاتون وزیر اعظم کی اپنے موقف کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ اس کی یکجہتی اور دہشت گردی کے خلاف اس کی پیہم مہم جوئی ملاحظہ کیجیے۔ گزشتہ چار روز سے نیوزی لینڈ کا پرچم سرنگوں ہے۔جیسنڈا آرڈرن نے سیاہ لباس میں ملبوس ہو کر اور سر پر حجاب اوڑھ کر غمزدہ خاندانوں سے دل جوئی کے لئے ان کے گھروں پر گئیں اور جس شدت جذبات کے ساتھ انہوں نے غمگین خواتین کو گلے لگا کر اظہار تعزیت کیا اس پر سارا عالم اسلام ان کا ممنون ہے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے یادگار خطاب کیا۔ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے انتہائی باوقار تعزیتی اجلاس کا آغاز مولانا نظام الحق تھانوی کی تلاوت کلام مجید سے ہوا۔ مولانا تھانوی نے سورۃ بقرہ کی آیات کی تلاوت کی جس میں ایمان والوں کو صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ تمام ممبران پارلیمنٹ نے کھڑے ہو کر شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے تقریر کا آغاز اور اختتام السلام علیکم سے کیا۔ خاتون وزیر اعظم نے کہا کہ میں کبھی دہشت گرد کا نام نہیں لوں گی۔ وہ ایک مجرم ہے۔ وہ ایک انتہا پسند ہے۔وہ ہمیشہ بے نام و نشان رہے گا۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں بہادر پاکستانی نعیم رشید کو نہایت پرجوش الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ انہوں نے عبادت گزاروں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان گنوا دی۔ جیسنڈا آرڈرن نے تقریر کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ مرنے والوں کا تعلق اس مذہب سے تھا جس کے پیروکار کشادہ دل کے ساتھ سب کا استقبال کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں اسلحہ کے حصول پر پابندی عائد کرنے کے لئے قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔ اس دوران ساری دنیا سے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا سلسلہ جاری ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم سکارٹ موریس نے انتہا پسندی پر مبنی مواد کو انٹر نیٹ سے ہٹانے پر زور دیا۔ مسلمانوں میں بہت مقبول و ہردلعزیز کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کی وجہ اسلامو فوبیا ہے۔ روس کے صدر ولادی پیوٹن نے کہا کہ مساجد پر حملوں کا مقصد سکون تباہ کرنا ہے۔ آج عالم اسلام کے بعض جذباتی حلقے کہتے ہیں کہ گزشتہ بیس برس سے یورپ و امریکہ کا میڈیا’’اسلامی دہشت گردی‘‘ اور ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ اور اسلام کا چہرہ مسخ کر کے دکھا رہا ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کے 70فیصد عوام کو مسلمانوں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ شہرہ آفاق ہفتہ وار جریدے ٹائم اور نیوز ویک جیسے جریدے بھی اسلام کے خلاف مضامین اور رپورٹیں زیادہ اور اسلام کے حق میں کم رپورٹیں شائع کرتے ہیں۔ بعض محقق پاکستانی کالم نگاروں کی تحقیق کے مطابق اسلام مخالف پروپیگنڈہ کے لئے بعض اسلام دشمن تنظیمیں سینکڑوں ملین ڈالر مختلف افراد اور اداروں کو دے چکی ہیں۔ ہم نے طعنہ زنی اور عیب جوئی کو اپنا شیوہ اور وتیرہ بنا لیا ہے۔ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے بہت پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مغرب کو بے مہر کہنے سے وہ ہم پر مہرباں ہو جائے گا؟ان20برسوں میں ہم نے اور ہمارے دولت مند حکمرانوں نے مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لئے کیا کیا ہے۔ دولت مند مسلمان ملکوں نے کتنے بلین یا ملین کا فنڈ مغرب میں اسلام مخالف پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لئے نیک نام اسلامی تنظیموں کو دیا۔ وہاں کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ہم نے کتنا عالمی و صحافی کنٹری بیوشن کیا ہے۔ جس آسٹریلوی رپورٹ کا پاکستانی جرائد میں ذکر کیا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ 70فیصد آسٹریلوی اسلام کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس کی ذمہ دار امت مسلمہ اور اس کے حکمران من حیث الکل ہیں۔واشنگٹن پوسٹ جیسے عالمی شہرت یافتہ اخبار میں اگر کوئی مسلمان صحافی کالم لکھتا ہے تو اس مسلمان صحافی کے ملک کی بعض ریاستی قوتیں اپنے ہی صحافی کا گلا گھونٹنے پر تل جاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ میں فرزندان اسلام کے خون سے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں جو لہر چلی ہے اس کو جاری و ساری اور زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کو بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسز نعیم رشید شہید جیسی خواتین کے سہارے مغرب کے میڈیا اور وہاں کی دانش گاہوں میں لیکچرز اور سیمینارز کا احترام فوری طور پر شروع ہونا چاہیے۔