لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف اشتعال پھیلانے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والے بانی ایم کیو ایم کو برطانوی پولیس نے دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا۔ بانی ایم کیو ایم اگرچہ بعدازاں ضمانت پر رہا کر دیے گئے تاہم ان کے جرائم کو پیش نظر رکھ کر ان پر نگرانی کی کڑی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ الطاف حسین کسی طرح کا سوشل میڈیا استعمال نہیں کر سکیں گے۔ انہیں برطانیہ سے باہر سفر کی اجازت نہیں ہو گی‘ وہ رات 12بجے صبح 6بجے تک گھر سے نہیں نکل سکتے۔ برطانوی پولیس نے الطاف حسین کی نقل و حرکت کی نگرانی کی غرض سے ان کے جسم میں ٹریکر لگا دیا ہے۔ جس سے حکام ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی پرفوری طور پر آگاہ ہو سکیں گے۔ ایم کیو ایم مڈل اور نچلے طبقے کی سیاسی نمائندگی کے لئے قائم ہوئی لیکن شروع دن سے اس کے منشور میں مہاجرین کی محرومیوں کو خاص انداز سے نمایاں کیا گیا۔ پنجاب اور بنگال کے باشندوں نے تقسیم کے وقت سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھایا لیکن دونوں مرکزی دھارے میں شامل ہو گئے۔ کراچی کا مسئلہ مہاجر اور مقامی کا نہیں تھا یہ ثقافتی اختلاف تھا جس میں سے مہاجر شہری آبادی کی محرومیوں کو برآمد کیا گیا۔ سیاست حقوق کے مکالمے کا نام ہے۔ دنیا بھر کی سیاسی جماعتیں ایسا کرتی ہیں جو گروپ مکالمے کی جگہ تشدد کو اختیار کرتے ہیں انہیں فاشسٹ کہا جاتا ہے۔ سیاسی تاریخ میں جتنے فاشسٹ گروہ دکھائی دیتے ہیں ان کا طریقہ کار ایسا ہی تھا جیسا بانی ایم کیو ایم نے اختیار کیا۔ کراچی شہر کی پھیلتی پھولتی ثقافت‘ سیاست اور تجارت فاشزم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس شہر میں روز بوری بند لاشیں ملنے لگیں‘ بھتے کی پرچیاں عام ہو گئیں۔ سٹریٹ کرائمز میں شدت آ گئی۔ پولیس اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو سرراہ قتل کیا جانے لگا۔ ہر اس بین الاقوامی ایجنسی اور ملک سے بانی ایم کیو ایم نے تعلقات استوار کئے جو پاکستان کی ریاست اور افواج پاکستان کا دشمن تھا۔ اس آسمان نے یہ منظر بھی بارہا دیکھے کہ طاقت کے غرور میں بانی ایم کیو ایم نے اپنے کچھ وفادار کارکنوں کے ہاتھوں بھرے مجمعے میں سینئر رہنمائوں کو پٹوایا۔ مہاجرین کے حقوق کی حقیقت یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں مکمل سیاسی و انتظامی کنٹرول کے باوجود صحت و صفائی کا تسلی بخش نظام تشکیل نہ پا سکا۔ جرایم کی بیخ کنی نہ ہو سکی الٹا نقصان یہ ہوا کہ سرکاری اور نجی املاک پر غیر قانونی قبضے ہونے لگے۔ بچوں کے پارک تعلیمی ادارے اور قبرستان تک محفوظ نہ رہے۔ بین الاقوامی ایجنسیوں اور دشمن ممالک سے رابطوں میں آسانی کی خاصر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی گئی اور لندن میں بیٹھ کر مدہوشی کی کیفیت میں تقاریر کراچی میں نشر کی جاتیں، ان سے فقط فساد نے پرورش پائی۔ الطاف حسین 1991ء سے برطانیہ میںمقیم ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے 2001ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو الطاف حسین نے برطانوی وزیر اعظم کے نام خط میں سندھ کے شہروں اور دیہات میں جہادی عناصر کے متعلق معلومات فراہم کرنے کی پیشکش کی۔2013ء کے انتخابات کے بعد الطاف حسین نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو دھمکیاں دیں۔ اس دوران پی ٹی آئی کی رہنما زہرہ شاہد حسین قتل ہو گئیں۔ کراچی سے ہزاروں شہریوں نے برطانوی پولیس کو ای میل پیغامات بھیجے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے تفتیش شروع کی لیکن معاملہ آگے نہ بڑھا۔2013ء میں متحدہ کے رہنما عمران فاروق کے قتل کے بعد برطانوی پولیس نے الطاف حسین کے گھر پر چھاپہ مارا۔ اس چھاپے میں ان کے پاس سے کئی لاکھ ڈالر کی نقدی برآمد ہوئی۔ برطانوی اداروں نے بھارت کے ملوث ہونے کے باعث اس سلسلے کو بھی نظر انداز کر دیا۔2016ء میں الطاف حسین نے اپنی ٹیلی فونک تقریر میں پاکستان کی سلامتی کے خلاف نعرے لگوائے۔ پاکستان سے لاکھوں افراد نے برطانیہ سے احتجاج کیا کہ اس کا شہری پاکستان کی سلامتی کے خلاف کام کر رہا ہے۔ جس پر رواں برس 11جون کو پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اس گرفتاری کے خلاف انہوں نے 12ستمبر تک ضمانت روا رکھی تھی۔ مدت پوری ہونے پر انہیں پھر سے حراست میں لیا گیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مقدمہ کی تفتیش اگلے دو ہفتوں میں مکمل ہو جائے گی۔بانی ایم کیو ایم کی ساری زندگی پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے میں گزری ہے۔ انہوں نے صرف کراچی شہر کو تباہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کے اس معاشی مرکز کو بدامنی کا گڑھ بنا کر دشمن کے عزائم پورے کئے ۔ افسوس ناک سچائی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنے اغراض کی تکمیل کے لئے بانی ایم کیو ایم کے ہر مطالبے کو تسلیم کیا اور ملک کے مستقبل کو برباد ہوتے دیکھتی رہیں۔ سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھرپور سرپرستی کے نتیجے میں جو فوائد ملے وہ سب لندن منتقل ہوتے رہے یا بانی کے حکم پر ان کے چہیتوں کو فراہم کر دیے گئے۔ کراچی اور حیدر آباد کے لوگوں کی حالت آج اسی وجہ سے خراب ہے کہ ان کے حقوق کی بات کرنے والے بانی ایم کیو ایم صرف ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا تھے۔ پاکستان سے محبت کرنے والے اہل کراچی خوف اور دہشت کی اس فضا میں اس لئے بھی بے بس تھے کہ سابق حکومتوں نے ریاست کی ساکھ‘ عزت اور سلامتی کے تحفظ کے لئے بانی ایم کیو ایم کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہ کی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے الطاف حسین کی ملک دشمن سرگرمیوں پر برطانوی حکومت کے ساتھ بات کی۔ قانونی طریقہ کار کے تحت اس معاملے میں فریق بنی اور پاکستان کو گالیاں دینے والے کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ۔امید ہے قانونی پیروی کا یہ عمل جاری رکھا جائے گا اور پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے بانی ایم کیو ایم قانون کے مطابق سزا پا سکیں گے۔