اَمریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے سات فروری بروز منگل کو اَمریکی کانگرس کے مشترکہ اِجلاس سے سالانہ خطاب کیا ہے جسے "اسٹیٹ آف دی یونین خطاب" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اَگر ہم امریکی سیاست کی روایات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر امریکی صدر کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کرتا ہے جو کہ نیوز کانفرنسوں، عوامی ریلیوں، اور پارٹی کارکنوں سے اَپنے معمول کے کسی بھی خطاب کے مقابلے میں زیادہ سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وسط مدتی انتخابات کے بعد منعقد ہونے والے اَپنے پہلے دور کے دوسرے سال کے اختتام کے بعد امریکی صدور کا سٹیٹ آف دی یونین خطاب عمومی طور پر زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک قسم کا 'رپورٹ کارڈ' ہوتا ہے جسے اَمریکی صدر اَپنے عوام کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ یہ خطاب اَمریکی صدر کی کامیابیاں اور اس کے مستقبل کے منصوبوں کو ظاہر کرتا ہے۔ نتیجتاً، اَمریکی صدر کے دوسرے سال کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کو زیادہ تر دوبارہ انتخاب کے لیے ابتدائی تقریر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ صدارتی تاریخ دان مائیکل بیسلوس کے مطابق، "صدر بائیڈن کی تقریر شاید دو یا تین سطروں کے لیے یاد رکھی جائے گی۔ متن کے مطابق وہ سطر، صدر بائیڈن کی خواہش کے مطابق، "کام ختم کرو"، ہوسکتی ہے کیونکہ یہ ایک جملہ کئی بار اِستعمال ہوا ہے۔ چاہے وہ ارب پتیوں پر ٹیکسوں کے بارے میں ہو، پولیس کے ظلم کو روکنے، بندوق پر قابو پانے یا انسولین کے اخراجات میں کمی کی بات ہو۔ صدر نے کہا کہ وہ "کام ختم" کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ صدر جو بائیڈن دوسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ امریکی سیاست کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی صدور تقریباً کبھی بھی دوسری مدت کے لیے دوبارہ انتخاب نہ لڑنے کی قربانی نہیں دیتے۔ لنڈن جانسن آخری صدر تھے، جنہوں نے ویتنام جنگ کے نتیجے میں 1968 میں دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا۔ تاہم، دلچسپ بات یہ ہے کہ بائیڈن جتنا عمر رسیدہ صدر کبھی نہیں رہا۔ وہ 80 سال کے ہیں اور دوسری مدت کے اختتام پر 86 سال کے ہوں گے۔ وَسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی کارکردگی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ صدر بائیڈن نے دوسری مدت کے لیے اپنی امیدواری کو مضبوط کر لیا ہے۔ بائیڈن نے "نیچے سے اوپر اور درمیان سے باہر کی معیشت کی تعمیر کے اپنے وژن کی تشہیر کی ہے، نہ کہ اوپر سے نیچے" اور ایسا لگتا ہے کہ یہ وژن خاص طور پر امریکی ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش ہے جو اپنے روزمرہ کے معاشی چیلنجز کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ ڈیموکریٹس کے پاس اِس ایجنڈے کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کی ایک طویل روایت ہے۔ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے اَمریکی سیاست کو ایک نئی جہت سے روشناس کیا اور اِقتصادی پروگراموں کے گرد گھومنے والا "نیو ڈیل" نامی ایک پائیدار پروگرام بنایا، جس میں بے روزگاری ،انشورنس، سوشل سکیورٹی، نیشنل لیبر ریلیشن بورڈ، ٹینیسی ویلی اتھارٹی شامل تھی، جس نے جنوب کے دیہی علاقوں میں روزگار اور بجلی کے منصوبے شروع کیے، عوامی کاموں پر اخراجات کیے۔ جنہوں نے اس کے جانے کے بعد بھی ایک متوسط طبقے کو بڑھاوا دیا۔ اِسی طرح صدر لنڈن جانسن نے بھی اپنی "عظیم سوسائٹی" کے منصوبے کے تحت اَمریکی ورکنگ کلاس کے لیے ایک اقتصادی مدد کا آغاز کیا، جس میں میڈی کیئر اور تعلیم پر وفاقی اخراجات شامل تھے۔ اپنے خطاب میں صدر بائیڈن نے معیشت پر توجہ مرکوز کی ہے اور ان ثقافتی مسائل کو کم کیا ہے جو گزشتہ دہائی کے دوران امریکی ملکی سیاست میں زیادہ مرکزی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ صدر نے اپنی کامیابیوں کے بارے میں عوام کے شکوک و شبہات دور کرنے میں کوئی رعایت نہیں کی۔ انہوں نے نوکریوں اور معیشت کے بارے میں مثبت اعدادوشمار کے ساتھ اپنے نکتہ نظر کو تقویت دیتے ہوئے اب تک جو کچھ کیا اس سے اَمریکی عوام کو آگاہ کیا جبکہ اس عام خیال کو غلط ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ ملک ٹھیک راستے پر نہیں ہے۔ اَمریکی تجزیہ کاروں کے مطابق، بائیڈن نے زیادہ تر صدور کے مقابلے اپنے پہلے ہی دو سالوں میں زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں ، جیسا کہ فرینکلن روزویلٹ کے بعد سے متوسط طبقے کی سب سے بڑی سرمایہ کاری، آئزن ہاور کے بعد سے انفراسٹرکچر میں، براک اوباما کے بعد سے صحت کی دیکھ بھال میں، جبکہ تاریخ میں موسمیاتی تبدیلی اور چپ ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے. پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح و بہبود کے لیے سب سے بڑی توسیعی سکیم شروع کی ہے، بل کلنٹن کے بعد سے بندوق کی حفاظت کا پہلا قانون اور گزشتہ ہفتے کی ملازمتوں کی رپورٹ کے مطابق، نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر قدم رکھنے کے بعد سے سب سے کم بے روزگاری کی شرح دیکھنے میں آئی ہے۔ جہاں تک بائیڈن کے دوسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے کے حوالے سے عوامی رائے کا تعلق ہے، یہ بائیڈن کے لیے کافی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ صدر بائیڈن کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کی مزید اہم بات یہ ہے کہ صدر بائیڈن نے خارجہ پالیسی پر زیادہ بات کرنے سے اِحتراز کیا ہے جسکی وضاحت غالباً یہی دی جاسکتی ہے کہ خارجہ پالیسی کے میدان میں اَمریکی صدر کی کارکردگی اتنی قابلِ فخر نہیں ہے جسکی بنیاد پر 2024 میں منعقد ہونے والے صدارتی اِنتخاب میں حصہ لیا جاسکے جبکہ کرونا وبا اور یوکرائن کی جنگ سے دنیا بھر کی معیشتوں کے متاثر ہونے اور اَفراطِ زر کی شرح میں اِضافے کے بعد سے اَمریکی صدر کی زیادہ توجہ امریکی عوام کو درپیش داخلی مسائل کے حل پر مرکوز ہے اِسی لیے صدر بائیڈن نے اَمریکی خارجہ پالیسی کے میدان میں اپنی کامیابیوں اور چیلنجز کا اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کھل کر تذکرہ کرنے سے گریز کیا۔