اِنڈونیشیا کی میزبانی میں گروپ آف ٹونٹی کا دو روزہ سربراہی اِجلاس بدھ 16 نومبر کو اِنڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ختم ہوا ہے۔ دنیا کے بیس بڑے صنعتی اور تجارتی ممالک کے رہنماؤں پر مشتمل G-20 کا اِس سال کا سربراہی اِجلاس یوکرائن جنگ اور اَمریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت کے تناظر میں منعقد ہوا ہے۔ انڈونیشیا کی G-20 صدارت کی مناسبت سے، اِس سال کی سربراہی اجلاس کا موضوع تھا "ایک ساتھ دوبارہ بحال کریں۔ مضبوطی سے بازیافت کریں"۔ یہ 17 ویں سالانہ سربراہی کانفرنس تھی اور دراَصل متعدد وزارتی اجلاسوں اور ورکنگ گروپس کا اختتام تھا جو اہم ترجیحی امور پر گزشتہ ایک سال سے کام کر رہے ہیں۔ اِس سال G-20 کا سربراہی اِجلاس ایک مختلف دنیا اور ایک بے مثال کثیر جہتی بحرانوں کے وقت منعقد ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور G-20 کے رکن روس نے ایک اور خودمختار ملک یوکرائن پر حملہ کر دیا ہے۔ یہ سربراہی اِجلاس میزبان ملک انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو سمیت رکن ممالک کے سربراہان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق G-20 کلب کے کچھ رکن ممالک نے انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدوڈو پر روس کو اِس سربراہی اجلاس میں مدعو نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ تاہم، انڈونیشیا کے صدر نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور ان کا خیال تھا کہ G-20 کو جغرافیائی سیاسی مسائل سے گریز کرنا چاہیے اور جامع پیش رفت پر توجہ دینی چاہیے۔ سربراہی اِجلاس کی کارروائی کے دوران G-20 کے کچھ ارکان (جو کہ سیکیورٹی ایشوز پر روس پر تنقید کرتے ہیں) نے یوکرائن جنگ پر روس کے خلاف قرارداد منظور کرنے کی کوشش کی تاہم قرارداد منظور نہیں ہو سکی بلکہ یوکرائن کے خلاف روسی جارحیت کا حوالہ کم شدت کے ساتھ دیا گیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو اِس سربراہی اِجلاس کو خوش اسلوبی سے منعقد کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور یہ خارجہ پالیسی کے میدان میں انڈونیشیا کی شاندار کارکردگی کی علامت ہے۔ اَقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والی بحث اور 2 مارچ 2022 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ قرارداد سمیت دیگر فورمز پر ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے، G-20 ممالک کے رہنماؤں نے، بالی اعلامیہ کے الفاظ میں، " یوکرائن کے خلاف روس کی جارحیت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور یوکرائن کی سرزمین سے اس کے مکمل اور غیر مشروط انخلاء کا مطالبہ کیا"۔ اگرچہ، بالی اِعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ارکان کی اکثریت نے یوکرائن میں جنگ کی سختی سے مذمت کی ہے تاہم اِعلامیہ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ " پابندیوں کے حوالے سے دوسرے خیالات اور صورتحال کے مختلف جائزے تھے"۔ اِعلامیے میں مزید یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ G-20 ایسا فورم نہیں ہے جہاں سیکیورٹی کے مسائل حل کیے جاسکیں۔ لہٰذا، اِس قسم کی صورتحال یوکرائن کی جنگ پر G-20 کے ارکان کے درمیان تقسیم کی عکاسی کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس خود بھی اِس فورم کا رکن ہے جبکہ چین اور بھارت بھی اِس گروپ کے ممبر ہیں جن کے روس کے ساتھ اہم تجارتی روابط ہیں۔ اِس صورت حال میں اَمریکی قیادت میں مغربی ممالک کے لیے G-20 جیسے فورم پر روس کے خلاف نان نیٹو ممالک کی حمایت حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔20 صفحات پر مشتمل G-20 کے بالی اِعلامیے میں عالمی اِقتصادی تعاون کے وعدوں کے بارے میں بات کی گئی ہے اور ماحولیاتی چیلنج، اقتصادی بدحالی، عالمی غربت میں اضافہ، بڑھتی ہوئی افراط زر اور عالمی بحالی میں سست روی سمیت سنگین اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اعلامیے کے مطابق، G-20 رہنماؤں نے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھانے پر بھی اتفاق کیا جس میں کوئلے کے مسلسل استعمال کو مرحلہ وار کم کرنے کی کوششوں کو تیز کرنا بھی شامل ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ G-20 بیس سالوں سے کام کر رہا ہے لیکن اِس نے بڑھتی ہوئی عالمی غربت کے مسئلے پر توجہ نہیں دی ہے بلکہ اکتوبر 2021 کے روم اِجلاس کے بعد عالمی معیشت کی بہتری کے امکانات مزید خراب ہو گئے ہیں۔G-20 ممالک دنیا کی آبادی کا 60 فیصد، دنیا کی جی ڈی پی کا 80 فیصد اور دنیا کی برآمدات کا 75 فیصد ہیں۔ اس طرح، وہ عالمی ترقی کے انجن ہیں. تاہم، زیادہ تر ممالک کو COVID-19 وبائی امراض کے نتیجے میں نمایاں پیداواری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مزید برآں، یوکرائن کی جنگ نے نہ صرف سیاسی اور جغرافیائی صورتحال کو غیر یقینی سے دوچار کیا ہے بلکہ سپلائی چین (supply chain) میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے اَفراطِ زر میں اِضافہ ہوا ہے جبکہ خاص طور پر روس اور یوکرائن سے کھاد اور غذائی اجناس جیسی اشیائ￿ کی معمول کی ترسیل رکنے سے اَجناس کی قیمتوں میں بھی اِضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً پوری دنیا معاشی سست روی اور بڑھتی ہوئی غربت کا شکار ہوئی ہے جبکہ مہنگائی میں اِضافہ ہونے کے ساتھ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔اَب عالمی معیشت میں تیزی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں۔ سب سے پہلے، G-20 ممالک کو مل کر ترقی کرنی چاہیے اگر وہ تیزی سے ترقی کرنا چاہتے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور غریب قوموں کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے جامع ترقی میں یقین رکھنا چاہیئے۔ دوم، اِس ترقی کو، بدلے میں، امن کی ضرورت ہے۔ اَمن برقرار رکھنے کے لیے عالمی طاقتوں کو چین اور اَمریکہ کے مابین عداوت جیسی جغرافیائی و سیاسی کشیدگی سے بچنے کی ضرورت ہے جو ترقی پذیر ممالک کو یرغمال بنا سکتی ہے اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اِس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ اَمریکہ اور چین دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں اور فوجی طاقتیں ہونے کے ناطے دنیا کو ایک اور سرد جنگ کی طرف دھکیلنے سے روکیں اور سمجھدار عالمی طاقتوں کی طرح برتاؤ کریں۔