بنجمن فرینکلن کا شمار ریاست ہائے متحدہ ا کے بانی اجداد (فاونڈنگ فادرز) میں ہوتا ہے۔ وہ زندگی میں ایک سائنسدان ، ماہر سیاسیات ، سفارتکار، موجد، مصنف، ناشر اور سفارتکار کے طور پر متحرک رہا اور ان تمام میدانوں میں متعدد قابل ذکر کارنامے سرانجام دئے۔ امریکیوں ہاں اس کا مقام با بائے قوم کا ہے ،اس کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 100 ڈالر کا رائج الوقت نوٹ اس شخص کی تصویر سے مزین ہے۔ بنجمن کی مختلف الجہت شخصیت اور سب کارناموں کو ایک طرف رکھیں دنیا بھر میں منیجمنٹ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کو اس کے ایک شہرہ آفاق جملے کی بدولت جانتے ہیں جو یہ ہے IF YOU FAIL TO PLAN, YOU ARE PLANNING TO FAIL یعنی اگر آپ درست پلان نہ بنا سکیں تو اس کا مطلب یہ کہ آپ نے اپنے لئے ناکامی کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔نہ جانے کیوں تحریک انصاف کی حکومت کے اقدامات اور آئے دن ایک نت نئے تنازعے کو دیکھ کر بار بار بنجمن کا یہ جملہ یاد آجاتاہے۔ کسی مقصد کے حصول یا منزل تک پہنچنے کے لئے ایک مضبوط پلان کا ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ اچھے پلان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ترجیحات کا تعین کیا گیا ہوتا ہے اور پھر ان ترجیحات کو ترتیب وار مرتب کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ترجیحات کے تعین کے مشہور ترین طریقہ رائس سکورنگ کا ہے۔ ( Confidence،Effort :(Reach, Impact, Rice Scoring اس سکورنگ میں آر سے مراد" ریچ" ہے کہ اس کام کا اثر کتنے لوگوں تک پہنچے گا؟ دوسرا لفظ" ایمپکٹ" ہے کہ اس کام کا لوگوں کی زندگی پر اثر کتنا ہوگا، تیسرا لفظ" کانفیڈنس" ہے یعنی اس کام میں کامیابی اور موثریت کا آپ کو کتنا یقین ہے اور چوتھا لفظ "ایفیرٹ" ہے یعنی اس کام کی تکمیل کے لئے آپ کو کس قدر کاوش اور وسائل کا استعمال کرنا پڑے گا۔ آپ تمام ممکنہ کاموں کی اس فارمولے کے تحت سکورنگ کرتے ہیں کہ پہلے تین اعداد کو ضرب دے کر ایفیرٹ سے تقسیم کرتے ہیں اور جن کا موں کا سکور زیادہ ہوتا ہے وہ آپ میں ترجیح میں سب سے اوپر آ جاتے ہیں۔ ترجیحات کی اس ترتیب کو منصوبہ سازی کہتے ہیں۔ اس طرح آپ کی ترجیح میں ایسے کام سب سے اوپر ہوتے ہیں جن کا مثبت اثر بہت ذیادہ لوگوں پر ہوتا ہے اور اس کام کے کرنے کے لیے آپ کو کم کاوشیں اور قدرے کم وسائل خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کی ترجیحات کا تعین دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ کوئی ایسی پلاننگ سرے سے کی ہی نہیں گئی اور اگر کی گئی ہے تو اس پر عمل در آمد الٹی ترتیب سے شروع کیا گیا ہے۔ قانون سازی کے میدان کو ہی لے لیں جو بل وہ لیکر آتے ہیں وہ ایک نیا تنازع کا ہی باعث بن جاتا ہے اور پھر اگر رائس سکورنگ پر آپ اس کو دیکھیں تو وہ کسی صورت میں ترجیحات کی ترتیب کے پہلے صفحات میں نظر آنے والا نہیں ہوتا۔ مثلا جبری قبول اسلام کا بل۔ 22 کروڑ کے ملک میں آزادی کے 74 سالوں میں شاید اس طرح کے 74 کیس بھی سامنے نہ آئے ہوں جن میں کسی غیر مسلم کو جبری مسلمان بنانے کی شکایت کی گئی ہو۔ اس مسئلہ پر قانون سازی کی حکومت کو کیا جلدی تھی ؟۔ میں روایتی مذہبی رائے رکھنے والوں سے متفق نہیں کہ اس معاملے پر قانون سازی کی ضرورت سرے سے ہے ہی نہیں، میں اس بل کی مخالفت میں اس دلیل کو بھی وزنی نہیں سمجھتا کہ کیونکہ دنیا کے اکثر ممالک میں مذہب کی تبدیلی کی مکمل آزادی ہے اور اس پر قانون سازی موجود نہیں تو پاکستان میں بھی اس پر قانون سازی نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔یہاں بہت سے قوانین ایسے ہیں جن کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ ریاست کے ریکارڈ میں ہر شہری کا مذہب درج ہے۔ یہ مسلمانوں کی سہولت کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے تحفظ کے لئے بھی ضروری ہے تاکہ ان پر ان قوانین کا اطلاق نہ ہو جو مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں۔ برطانیہ یا فرانس وغیرہ میں اگر مذہب کی تبدیلی پر کوئی قانون نہیں تو وہاں کے قانون میں شادی کے لئے ہم مذہب ہونا بھی ضروری نہیں پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ کسی کو جبری مسلمان بنانا اسلام میں ممنوع ہے اور پاکستان کے قانون میں اس غیر اسلامی اقدام کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس کو سرکاری اندراج کا کوئی نظام ہونا چاہیے اور اس موقع پر اس بات کہ تصدیق میں ہونا چاہئے کہ کسی کو جبری مسلمان نہیں کیا جارہا۔لیکن حکومت نے اس کا جو طریقہ تجویز کیا وہ غیر منطقی ہے۔۔ دور رسالت سے لیکر آج تک جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ان میں سے شاید گنتی کے ہی ایسے لوگ ہونگے جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے تمام ادیان کا تقابلی مطالعہ کیاہو اور پھر اس تفیصلی مطالعے کی بنیاد پر مسلمان ہوئے ہوں۔ مذہب کی تبدیلی بنیادی طور پر ایک روحانی اور قلبی معاملہ زیادہ ہے اور علمی اور تحقیقی کم۔ لہذا کسی کے اسلام قبول کرنے کو تقابل ادیان کے تین ماہ تک مطالعہ سے مشروط کرنا بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے اور قبول اسلام کو مشکل بنانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح اسلام یا دنیا کے کسی اور مذہب میں اس مذہب کے قبول کرنے کی کوئی کم سے کم عمر مقرر نہیں تو آپ جب اسلام قبول کرنے کی کم سے کم عمر مقرر کریں گے تو اس پر تنازعہ تو کھڑا ہوگا۔لیکن دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ جب کسی معاملے پر باقاعدہ قانون بنایا جائے گا تو اس کا تعین بھی کرنا ضروری ہوگا کہ اس قانون کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا یہ کسی خاص عمر کے لوگوں پر۔ اب حکومت عمر کی حد قائم رکھتی ہے تو اسلامی اور جملہ مذاہب کی تعلیمات کے خلاف قانون سازی کرے گی جس کو اہل پاکستان کبھی قبول نہیں کریں گے۔ اگر حکومت کے اس طرح کے اقدامات کے پیچھے کسی طرح کی منظم پلاننگ ہوتی تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ یہ ایک بل کا معاملہ نہیں حکومت کی تین سالہ کارکردگی میں ایک دو شعبوں کو چھوڑ کر ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔ ناگزیر اہم ترین اور عوام کی اکثریت پر مثبت اثر قائم کرنے والا کوئی ایک کام بھی یہ حکومت پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی۔ کرپشن کا کوئی کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچا، لوٹی ہوئی قومی دولت کی ایک پائی ملک واپس نہ آسکی، پولیس اصلاحات پر ایک قدم نہیں اٹھایا گیا۔