اس میں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ وطن عزیز اقتصادی طور پر قلاش ہو چکا ہے اورہماری سیاسی قیادت جو عام انتخابات سے قبل یہ کہتی تھی کہ خود کشی کر لیں گے لیکن قرضے نہیں لیں گے ،آئی ایم ایف کے آگے طوعاًوکرہاً دو زانو بیٹھی ہے۔پہلے نو ماہ میں پی ٹی آئی کی حکومت نے جس ملک نے بھی مال دیا بخوشی لے لیا۔وزیر اعظم عمران خان آج اپنی کابینہ کو آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر سے زائد کے پیکج کے حوالے سے بریف کر رہے ہیں۔ یقینا وہ یہ بتائیں گے کہ پچھلی حکومت کی غلط پالیسیوں کی بنا پر آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے ملک کا اقتصادی ڈھانچہ ہی ناقص اور غیر حقیقی بنیادوں پر کھڑا تھا اور خان صاحب کی زیر قیادت یہ اپنے ہی بوجھ تلے دب رہا ہے ۔کبھی کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس حال کو پہنچے اور کبھی 18ویں ترمیم کو وفاق کے دیوالیہ ہو نے کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے ۔حالانکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا ہی طوطی بولتا ہے، اگر وفاقی پول سے ان صوبوں کو زیادہ وسائل مہیا ہو رہے ہیں تو ان صوبوں کے عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر خرچ ہونے چاہئیں اور پی ٹی آئی کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے ۔مسئلہ کچھ اور ہے وفاق کے پاس دفاعی بجٹ اور قرضو ں پر سود کی ادائیگی کے بعد کچھ بچتا ہی نہیں ،کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم یہ غور کریں کہ اس صورتحال کا کس طرح مداوا کریں ۔ پاکستان 21مرتبہ پہلے بھی آئی ایم ایف کے پروگرام میں جا چکا ہے اور کئی مرتبہ آئی ایم ایف کے پروگرامز کی شرائط کی بھی تکمیل نہیں کر سکا ۔مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کر کے کامیابی سے قرضے اتارے ۔جی ہاں ! یہ وہی اسحق ڈار ہیں جنہوں نے بطور وزیر خزانہ چھ بجٹ پیش کیے لیکن پی ٹی آئی کے بیانیے کے مطابق وہ کرپٹ اور نااہل ہیں ۔کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم اپنے اقتصاد ی ڈھانچے کو اپنے وسائل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں ،جتنی چادر ہو اتنے پاؤں پھیلائیں۔ یہ درست ہے کہ ہمیں اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے معاملے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے لیکن کسی بھی ملک کی طاقت کا انحصار اس کے متوازن اقتصادی ڈھانچے پر ہوتا ہے اور یہ کہ وہ اپنے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کیا کچھ کر رہا ہے اور اگر سٹیک ہولڈرز یہ محسوس کرنے لگیں کہ ان کی گزر اوقات تلخ تر ہوتی جا رہی ہے تو اس سے فیڈریشن کمزور ہو جاتی ہے ۔ سابق سوویت یونین کی مثال ہی سامنے رکھیں،سوویت یونین دفا عی طور پر امریکہ کا مقابلہ کر رہا تھا ۔ وہ اپنی روایتی فوج کی تعداد اور سازو سامان کے علاوہ نیو کلیئر شعبے میں بھی امریکہ سے مسابقت کی دوڑ میں تھا ۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ سوویت یونین کی کمزور اقتصادی بنیاد اسے بری طرح کھو کھلا کر رہی ہے اور یہی ہوا کہ سوویت یونین 1991ء میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ،ہمیں بھی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نریندر مودی کا بھارت بھی پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے یہی چال چل رہا ہو کیونکہ اس کے بعض پالیسی ساز اور تھنک ٹینک اسی قسم کی سوچ رکھتے ہیں ۔لہذا پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے ایک نیشنل سکیورٹی سٹیٹ کے بجائے ایک اقتصا دی طاقت بننا ہو گا کیونکہ وطن عزیز کے اصل دفاع کا انحصار مضبوط اقتصادی بنیادوں پر ہے ۔اس وقت تو صورتحال اتنی دگرگوں ہے کہ خطے میں افغانستان کے سوا قریبا ً تمام ملکوں کے مقابلے میں ہماری شرح نمو کم ہے ۔ مہنگائی کی شرح ڈبل ڈیجٹ تک پہنچ رہی ہے ۔سٹاک مارکیٹ کا دیوالیہ نکل چکا ہے ا ور قوم کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے ۔اس ماحول میں سرمایہ کاری قریبا ً منجمد ہے، اس پر مستزادیہ کہ آئی ایم ایف کے پیکج سے میکرو اکنامک استحکام تو ضرور آئے گا لیکن اس کے ساتھ ہی عوام اور سرمایہ کاروں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا ۔ وطن عزیز نہ صرف اقتصا دی طور پر بلکہ سیاسی اور اخلاقی طور پر بھی دیوالیہ پن کا شکار ہو رہا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں اختلاف رائے کے ساتھ ساتھ بنیادی معاملات پر اتفاق، جمہوریت کی روح ہوتی ہے لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ اب سیاست کا نام یہ ہے کہ کون کس کے خلاف کیا فقرے بازی کرتا ہے ،کتنا جھوٹ بولتا ہے اور کتنی بڑی گالی دیتا ہے ۔ منتخب ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیاں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے چلتی ہیں لیکن عملی طور پر یہ قانون سازی کے بجائے اکھاڑے بن کر رہ گئے ہیں ۔وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے بیشتر ارکان اسمبلیوں میں قدم بھی رنجا نہیں فرماتے اور اپوزیشن اور حکومتی جماعت کے ارکان ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہے ہوتے ہیں۔اسی بنا پر بہت سے لوگ اب اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بدرجہا بہتر ہے ۔ اگرچہ حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان جمہوریت کے ذریعے ہی قائم ہوا تھا اور اس سے ہی آ گے بڑھ سکتا ہے لیکن جمہوریت کے سٹیک ہولڈرز بالخصوص حکمران جماعت کے ارکان جو کھلواڑ کر رہے ہیں اس کی کم ہی مثال ملتی ہے ۔ تازہ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی عید کے بعد مہنگائی اور بے روز گاری سے تنگ آئے ہوئے عوام کو سڑکوں پر لانے کی تیاری کر رہی ہیں اور اس ضمن میں مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کے لیے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم جیسا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مشکل حالات میں اپوزیشن کو دھتکارنے کے بجائے گھمبیر اقتصادی اور سکیورٹی معاملات پر آن بورڈ لے۔ احتساب ہونا چاہیے لیکن بلا امتیاز ہونا چاہیے ۔اگر نیب کے موجودہ قوانین میں کچھ خامیاں یا سقم ہیں تو انہیں دور کرنے کے حوالے سے اپوزیشن اور حکومت کو مل بیٹھنا چاہئے تاکہ ایک جامع قانون بنایا جا سکے جس پر کسی کو تحفظات نہ ہوں اور نیب پر بھی لگے الزامات اور داغ دھل سکیں گے۔ اس ضمن میں وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق پارلیمان کے اندر کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ بلا امتیاز اور شفاف احتساب کے علاوہ اپوزیشن اور حکومت کے اچھے تال میل سے ہی ملکی حالات بالخصوص معاشی صورتحال ٹھیک ہو سکتی ہے ۔ملک میں سازگار اور پرامن سیاسی ماحول کے قیام کیلئے حکومت کو اپوزیشن سے بات چیت کیلئے پہل کرنی چاہئے کیونکہ منصب کے لحاظ سے یہ اس کا فرض ہے،اگر اپوزیشن ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو حکومت کو دو قدم آنا چاہئے تاکہ ملک کو گھمبیر حالات سے نکالا جا سکے لیکن اگر حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر رہی تو پھر نقصان اسی کا ہی ہے کیونکہ حکومت کے پاس کھونے کیلئے بہت کچھ ہے اپوزیشن تو ویسے ہی تہی دامن ہوتی ہے۔