بجٹ آنے والا ہے،بجٹ میں ہر خاص و عام کو حکومت سے توقع ہوتی ہے کہ حکومت ان کیلئے کیا سہولتیں لا رہی ہیں، کیا خوشخبری ہے،کون سے نئے ٹیکس لگ رہے ہیں، کونسی اشیا سستی اور کونسی مہنگی ہو رہی ہیں۔ معاشی ترقی کا فائدہ بہرحال عوام کو ہونا چاہئے اور عوام آج کل مہنگائی سے سخت پریشان ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم معاشی ترقی سے مطمئن اور خوش ہیں تو دوسری طرف مہنگائی سے پریشان ہیں اور کہتے ہیں کہ: مہنگائی کی وجہ سے انہیں راتوں کو نیند نہیں آ تی،جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ وزیراعظم کو مہنگائی کے باعث عام آدمی کی کسمپرسی کا بخوبی اندازہ ہے،وزیر اعظم عمران خان گاہے بگاہے عوام سے براہ راست ٹیلی فون پر بات کرتے رہتے ہیں،وہاں بھی انہیں زیادہ کالیں مہنگائی پر آتی ہیں ۔وزیر اعظم پر امید ہیں کہ آنے والے وقتوں میں مہنگائی پر بھی قابو پا لیا جائے گا،ان کے لہجہ سے لگتا ہے، انہیں واقعی مہنگائی پر پریشانی ہے اور وہ اسے کم کرنے کیلئے اقدامات کر بھی رہے ہیں۔ آنے والا بجٹ حکومت کیلئے بہت اہم ہے ،حکومت سمجھتی ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے ،مشکل وقت دیکھ چکے،اب آگے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔جون کا مہینہ قوم کے لیے اْمید و یاس کا مہینہ ہوتا ہے۔ چونکہ اس ماہ وفاقی اور صوبائی بجٹ پیش ہوتے ہیں جو حکومتوں کے لیے تو امتحان ہوتے ہی ہیں مگر عوام الناس کے لیے بہت بڑا امتحان ہوتے ہیں۔ سرکاری ملازمین اور پنشنر حضرات سارا سال اسی توقع میں جون کا انتظار کرتے ہیں کہ انہیں بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کی صورت میں مہنگائی کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ ریلیف مل جائے گا۔ اس کے لیے ان کی تنظیمیں بجٹ سے پہلے پہلے احتجاجی مظاہروں اور جلسوں جلوسوں کی شکل میں حکومت پر دبائو ڈالنے کے حربے بھی اختیار کرتی ہیں،جن کے ذریعے تنخواہوں اور پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کا تقاضہ کیا جاتا ہے جبکہ عوام الناس کو اس بات کی فکر لاحق ہوتی ہے کہ بجٹ میں نئے ٹیکسوں کا بوجھ کہیں ان کے کندھے پر ہی نہ آ جائے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا بھی یہی کہنا ہے کہ:پاکستان جیسے ملک کو 6یا 7 فیصد سے گرو کرنا ہو گا، تبھی اس کے فوائد عوام تک پہنچیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ: اس بجٹ میں ترقیاتی بجٹ زیادہ رکھا جائے گا،ٹیکس بڑھائے جائینگے چونکہ شرح سود کم ہے اس لئے پرا ئیویٹ سیکٹر کی گروتھ مزید بڑھے گی،جو معاشی انڈیکیٹر ہیں وہ بہتر ہو رہے ہیں، اس وقت حالات تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے دو سال سے بہتر ہیں اور جو اگلے دو سال ہونگے وہ اس سے بھی بہتر ہونگے۔ اب حکومت کو سوچ سمجھ کر درست فیصلے کرنے ہونگے،جیسے اب گروتھ ریٹ 3.94 بتایا جا رہا ہے اگر اس سے نیچے آ گیا تو حکومت کیلئے بہت برا ہو گا ، تو حکومت کو اچھے فیصلے کرنے ہونگے۔ جیسے اب چل رہا ہے اگر اسی رفتار سے ملک چلتا رہا تو آنے والے برسوںمیں گروتھ ریٹ 6 فیصد تک جا سکتی ہے۔اس وقت حکومت کو جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ ہے افراط زرکا، مہنگائی کا، یعنی اگر آپ گروتھ اچھی دکھا رہے ہیں لیکن گروتھ اچھی ہونے کے با جود مہنگائی کم نہیں ہو رہی تو عام آدمی پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ اب حکومت کو سارا زور مہنگائی کم کرنے پر لگانا ہوگا، مہنگائی کی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی کہ آیا اشیاء ذخیرہ تو نہیںہو رہی ہیں یاڈیمانڈ اینڈ سپلائی میں فرق تو نہیںپڑ رہا ہے، یہ سب دیکھنا ہوگا ۔ طلب و رسد کو بہتر بنانا ہو گا۔ایک بات یہ ہو رہی ہے کہ حکومت بجٹ کو کیسے پاس کرائے گی، اپوزیشن نے تو ابھی سے قسم اٹھا لی ہے کہ بجٹ پاس نہیں ہونے دینگے ۔ادھر حکومتی صفوں میں بھی کچھ دراڑیں نظر آ رہی ہیں لیکن اس کے با جود بجٹ پاس ہو جائے گا۔وز یر اعظم اور انکی ٹیم میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے وہ یہ کہ اب حکومتی ٹیم اپوزیشن پر الزامات لگانے کی بجائے معیشت پر فوکس کر ر ہی ہے۔ تمام وزرا معیشت پر بات کر رہے ہیں، جب سے 3.94 کا فگرسامنے آیا ہے حکومت میں لگتا ہے توانائی بھر گئی ہے ۔پہلے حکومتی بیانات میں جوش نہیں ہوتا تھا لیکن اب ان کے چہروں سے صاف لگ رہا ہے وہ مطمئن ہیں ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ مختلف منصوبوں کا افتتاح ہو رہا ہے،پہلے ایک ڈیڑھ سال تک تو حکومتی ٹیم پچھلی حکومتوں کو چور اور ڈاکو ثابت کرنے میں لگی رہی۔ اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں ،سب کا فوکس اس پر تھا۔ اب لگتا ہے عوامی کام شروع کردیا گیا ہے۔ اب وزیر اعظم سمیت سب کا فوکس معاشی ترقی پر لگا ہوا ہے جو خوش آئند ہے ۔ایک موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے دو سال بہت مشکل تھے اگر اپوزیشن حکومت گرانے میں سنجیدہ ہوتی اور واقعی عوام کیلئے نکلتی تو وہ حکومت گرا سکتی تھی لیکن اپوزیشن صرف اپنے کیس ختم کرانے اور اپنے لئے ریلیف کیلئے نکلی تھی اس لئے حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ اب تو ویسے ہی حکومت مستحکم ہو گئی ہے اب انہیں کوئی خطرہ نہیں۔ ایک غیر ملکی سروے کے مطابق پاکستانی عوام کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں، مہنگائی ہے یعنی پاکستانی عوام کو کرپشن سے کوئی غرض نہیں، انہیں صرف مہنگائی سے مسئلہ ہے، انہیں دو وقت کی روٹی چاہئے، گھر چلانے کیلئے روز گار چاہیے۔ پاکستان کے 29 فیصد افراد مہنگائی سے 30 فیصد افراد بیروز گاری سے 11فیصد افراد ٹیکسوں سے پریشان ہیں اور چند فیصد افراد ہیں جو کرپشن سے پریشان ہیں۔ حکومت کی جانب سے معیشت کی بحالی کے جو دعوے کئے جا رہے ہیں‘اسکی تصدیق موڈیز کی جانب سے بھی کی گئی ہے کہ پاکستان کی معیشت چار فیصد سے زیادہ سالانہ شرح نمو کی استعداد کی حامل ہے‘ بڑے صنعتی اداروں کے شعبہ کی شرح ترقی میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ اسکے نتیجہ میں معیشت کی شرح نمو میں مزید اضافہ ممکن ہے تو یہ قوم کیلئے انتہائی اطمینان بخش ہے۔اب جبکہ ملک کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو چکی ہے تو حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر مہنگائی پر قابو پانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ وزیر خزانہ کے بیانات بھی حوصلہ افزاء ہیں لیکن معیشت کی بحالی اور ملکی ترقی کے دعوے اسی وقت سچ ثابت ہونگے جب معیشت کی بہتری کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں گے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے بجلی کے نرخ نہ بڑھانے کا فیصلہ خوش کن نظر آتا ہے ‘ لیکن انہیںموجودہ مہنگی بجلی کے نرخوں میں کمی کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے، جس کا وہ برملا اعتراف کر رہے ہیں کہ عوام مہنگی بجلی خرید رہے ہیں۔ اب جبکہ حکومتی اکابرین عام آدمی کی پریشانی سے بخوبی آگاہ ہیں تو انہیں آنیوالے بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہیے تاکہ معیشت کی بحالی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قوم کی حمایت اور تاجر برادری کی طرف داری میںحوصلہ افزاء بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ حکومت وفاقی بجٹ کو عوام دوست بجٹ کی صورت میں پیش کرنے کی خواہش مند ہے۔۔دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے قومی حالات اور معاشی و اقتصادی معاملات پر رحم و کرم کرے تاکہ قومی عوامی زندگی کا پہیہ یکسوئی سے چلتا رہے ۔پاکستانی عوام اپنے وزیراعظم عمران خان سے توقع کرتی ہے کہ وہ وفاقی بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لئے بہت زیادہ فنڈز مختص کریں ۔ وفاقی بجٹ میں عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔