مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہی وفاق او ر صوبوں میں اگلے سال کے بجٹ کو حتمی شکل دی جاری ہوتی ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت میں جون کے مہینے میں سالانہ مالی اخراجات کا تخمینہ طے کیا جاتا ہے۔ بجٹ پیش ہوتے ہی آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ یہ بجٹ عوام دوست بجٹ ہوگا ۔ لیکن یہ جملہ حکومت کا دعویٰ ہوتا ہے حقائق اسکے بر عکس ہوتے ہیں گزشتہ تین ادوار میں ہر حکومت عوام دوست بجٹ پیش کرنے کا دعوی کرتی رہی ہے تاہم ساتھ ساتھ ایک جملے کا اضافہ ضرور کرتی ہے کہ اس بجٹ میں کڑوا گھونٹ پی کر نئے ٹیکسز لگا کر مہنگائی بڑھا رہے ہیں۔ اس بار بھی وفاقی حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے۔ پچانوئے کھرب دو ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا ہے حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ کردیا گیا ہے بجٹ کے اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال میں قرضوں کی ادائیگی کی مد میں تین ہزار ایک سو چولیس ارب روپے ادا کرنے ہونگے رواں مالی سال میں ایف بی آر کے ریونیو کا تخمینہ سات ہزار چار ارب روپے جس میں صوبوں کا حصہ اکتالیس سو ارب روپے ہوگا بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے آٹھ سو ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ جب کبھی پیش ہوتا ہے ایک نکتہ بجٹ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے سارا سال اس پر بحث ہو یا نہ ہو جون کے مہینے میں بحث ضرور ہوتی ہے۔ اس بار بھی ہوئے اس بار دفاعی بجٹ کیلئے پندرہ سو تئیس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں دفاعی بجٹ کے اعداد و شمار کو صحت اور تعلیم کے اعداد و شمار کیساتھ موازنے کے ٹویٹس کی سوشل میڈیا پر بھرمار ہے لیکن یہ وضاحت کسی دانشور نے نہیں کی اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت اور تعلیم اب صوبوں کی زمہ داری ہیں اور انکی جانب سے مختص رقم کو اگر وفاق کی رقم سے ملایا جائے تو صحت اور تعلیم کا بجٹ خاطر خواہ بن جاتا ہے اسلئے وفاقی بجٹ میں تعلیم اور صحت کا دفاع کے بجٹ سے موازنہ غلط ہے جبکہ اس بار پہلی مرتبہ دفاع کے بجٹ پر کچھ اعداد و شمار میڈیا کو فراہم ہوئے ہیں انکی تفصیلات کو دیکھنا ضروری ہے پچھلے دو سالوں میں آرمی نے اپنے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں لیا ہے۔اتنے بڑے خطرات کی موجودگی میں GDPکا صرف2فیصد دفاعی بجٹ ہے جبکہ اسکے برعکس ہندوستان کا دفاعی بجٹ 70بلین ڈالر جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ11بلین ڈالر ہے۔ بھارت پاکستان کی نسبت اپنے ایک فوجی پر سالانہ 4گنا زیادہ خرچ کر تا ہے جبکہ پاکستان اپنے ایک فوجی پر سالانہ13400ڈالر، انڈیا 42000ڈالر،امریکہ 392,000ڈالر، ایران 23000ڈالرجبکہ سعودی عرب371,000ڈالر خرچ کرتا ہے۔ سالانہ دِفاعی اخراجات کے حوالے سے بھارت دُنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے بھارت کا دِفاعی بجٹ پاکستان کی نسبت 7گُنا زیادہ ہے۔ بھارت صرف جدید اسلحہ کی خریداری کے لیے سالانہ لگ بھگ18سے19بلین ڈالر لگاتا ہے جو کہ پاکستان بجٹ کا تقریباََ 2گُنا ہے جبکہ سعودی عرب کا ڈیفنس بجٹ 55.6بلین ڈالر، چائنہ کا ڈیفنس بجٹ293بلین ڈالر، ایران کا ڈیفنس بجٹ24.6بلین ڈالر،UAE کا ڈیفنس بجٹ22.5بلین ڈالراورترکی کا ڈیفنس بجٹ 20.7بلین ڈالر ہے۔اسکے مقابلے میں سال دو ہزار اکیس بائیس کا دِفاعی بجٹ قومی بجٹ کا 16فیصدتھا جس میں 7فیصد پاکستان آرمی جبکہ باقی نیوی اور ائیر فورس کے حصے میں آتا ہے۔رواں مالی سال میں روپے کی قدر میں52فیصد کمی واقع ہوئی جس کے باوجود دِفاعی ضروریات کو دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے پورا کیا گیاجبکہ 2018ء کے بعدکولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش کے باوجود دِفاعی اور سیکورٹی کی ضروریات کو ملکی وسائل سے ہی پورا کیا گیا۔ آپریشن ردّالفساد کے اہداف اور دائرہ کار اور دیگر سیکورٹی اُمور میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی۔رواں بجٹ میں دفاع کے بعد راقم کی دلچسپی بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ضم شدہ اضلاع میں رہی اس بجٹ میںترقیاتی پرگرام میں بلوچستان کو ایک بار پھر اہمیت دی گئی ہے اور بلوچستان کیلئے سب سے زیادہ فنڈز پی ایس ڈی پی میں ایک سو سترہ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔وفاقی حکومت اور بلوچستان میں تعینات تین سے چار اہم افسران نے یہ ثابت کردیا کہ اگر بلوچستان میں چیزوں کو بہتر کرنے کی نیت موجود ہوتو بہت کچھ بدلا جاسکتا ہے۔ موجودہ بجٹ کی تجاویز کیلئے بلوچستان میں تعینات اہم افسران نے وفاقی حکومت کو سفارش کی کہ بلوچستان میں ترقی کے پہیئے کو تیزی سے گھمانے کیلئے فوری نئے منصوبوں کے آغاز سے قبل پہلے جاری منصوبوں کو مکمل کیا جائے تاکہ ترقی کے عمل کو بہتر کیا جائے اور جن منصوبوں پر ابتدائی سرمایہ کاری ہوچکی ہے ان منصوبوں کے فوائد عوام کو مل سکیں. وفاقی حکومت نے سیاسی دبائو کو ایک طرف رکھ کر بلوچستان کیلئے مختص ایک سو سترہ ارب روپے میں نوئے فیصد رقم جاری منصوبوں کیلئے رکھی گئی ہے جبکہ دس فیصد رقم جن منصوبوں کیلئے رکھی گئی ہے انکا ایک گہرا اثر بلوچستان کی ترقی کے سفر پر ہوگا .ان منصوبوں میں کوئٹہ شہر کیلئے میٹرو بس سروس کی فزیبلٹی کیلئے رقم مختص کی گئی ہے کوئٹہ خضدار سیکشن کو دو رویہ کرنے کیلئے رقم مختص کی گئی ہے جبکہ پٹ فیڈر کینال کو کچھ کینال کی طرح پختہ کرنے کیلئے منصوبہ بھی نئے بجٹ کاحصہ ہے جس انداز میں وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان میں جاری منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے اسہی انداز میں اگر صوبائی پی ایس ڈی پی میں میگا پراجیکٹس خاص کر جاری منصوبوں پرصوبائی بجٹ کا نصف بھی خرچ کیا جائے تو کم از کم بلوچستان میں ترقی زمین پر نظر آئیگی. بلوچستان کے بعد قبائلی علاقہ جات کے معاملے پر خیبر پختونخواہ حکومت وفاق سے ناراض ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے کے پی کے کی حکومت سے کئے گئے وعدوں کو بھلانے پر ناراض ہے۔