جماعت اسلامی نے دلچسپ اعلان کیا ہے جسے ’’بازگشت‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔کہا ہے کہ وہ کشمیر بچائو مہم چلائے گی اور اس کے بعد ایک عالمی کانفرنس بھی بلائے گی۔ باز گشت سے مراد یہ ہے کہ یہ گویا اسی قسم کی تحریک ہو گی جو اس نے نصف صدی پہلے بنگلہ دیش نامنظور تحریک کے نام سے چلائی تھی۔ تب جماعت کا خیال تھا کہ اس تحریک کے نتیجے میں بنگلہ دیش پھر سے مشرقی پاکستان بن جائے گا اور اب اس کا خیال یہ لگتا ہے کہ کشمیر بچائو تحریک کے نتیجے میں بھارتی آئین کی شق پھر سے بحال ہو جائے گی اور کیا پتہ بھارت کشمیر سے نکل ہی بھاگے۔ جماعت کے خیال میں تو پھر بھی وزن ہے‘ چاہے اعشاریہ صفر صفر ایک گرام ہی سہی لیکن ہمارے ہاں تو بعض احباب ایسے بھی ہیں جن کی امیدوں کا سارا مرکز کشمیری عوام ہیں۔ ان کا خیال نہیں یقین ہے کہ کشمیری عوام لاشوں کے ان گنت نذرانے دے کر بھارت کو بھگا دیں گے اور پھر مقبوضہ کشمیر پاکستان کے حوالے کر دیں گے۔ بنگلہ دیش نامنظورکی تحریک جذباتی تھی اور جماعت نے بخیال خود اچھے مقصد سے چلائی تھی لیکن اس تحریک کا اشارہ دینے والے کچھ اور تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں نفرتیں ختم ہوں۔ چنانچہ اس تحریک کا حاصل وصول یہ ہوا کہ بنگالیوں میں پاکستان سے دوری اور بڑھ گئی اور ردعمل کا کلہاڑا جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر ایسا چلا کہ آج تک چل رہا ہے۔ حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے اتنے بڑے بڑے لیڈر اتنی آسانی سے پھانسی پرچڑھا دیے ہیں تو اس کا آدھے سے زیادہ کریڈٹ پاکستانی میڈیا کو جاتا ہے جس نے حسب فرمائش سرخیاں لگائیں۔ مثلاً حسینہ واجد نے پاکستان کے ایک اور بیٹے کو سزائے موت سنا دی۔ ایسی سرخیاں وہاں خوب دکھائی گئیں جن کے بعد کسی کو جرأت ہی نہ ہو سکی کہ وہ ان مظلوم بے گناہ رہنمائوں کے حق میں ایک سطر کا بیان ہی دے دیتا۔ جلوس نکالنا تو دور کی بات۔یعنی حسینہ کا کام ہم نے آسان کر دیا۔ ٭٭٭٭٭ کشمیریوں پر جماعت اسلامی ،لشکر طیبہ اورجیش محمد کے اتنے احسانات ہیں کہ مزید کی گنجائش نہیں۔ آج سے عشرہ بھر پہلے مولانا وحید الدین خان نے دلیل سے سمجھایا تھا کہ جسے آپ جہادکہہ رہے ہو یہ کشمیری ہی نہیں بھارتی مسلمانوں کا جینا بھی حرام کر دے گا، تب ہمارے جیسے محب الوطنوں اور سچے مسلمانوں نے مولانا کو دائرہ اسلام سے تقریباً خارج ہی کر دیا تھا۔ راقم الحروف نے ایکسپریس میں کئی کالم ان کی مذمت میں لکھے رفتہ رفتہ پتہ چلا کہ وہ سچے تھے اور بھارت و کشمیر دونوں جگہ کے مسلمانوں کے ہمدرد ہم اس کے برعکس ان کے نادان دوست تھے۔ حالات نے جہاد کو یوٹرن دے دیا اورکچھ زیادہ ہی دے دیا۔ نانی نے خصم کیتا برا کیتا‘ چھڈ دتا ہور برا کیتا والا معاملہ ہو گیا اورہم ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے کی کیفیت آ گئی۔ بی بی سی نے لکھا ہے کہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کا ڈھول بج رہا ہے۔ ڈھول تو پہلے ہی بجنا شروع ہو گیا تھا لیکن آڈیو نہیں آ رہا تھا اب ع بج رہا ہے اور بآواز ہے خبر ہے کہ بھارت کنٹرول لائن پر جنگ چھیڑنے کے جھوٹے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے اس نے اپنے زیر قبضہ علاقے میںفوجی چوکی پر پاکستانی جھنڈا لہرا دیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ پاکستان نے در اندازی کی۔ خیر‘ یہ جعلسازی تو کھل گئی اب وہ کوئی نئی جعلسازی کرے گا۔ لیکن حیرت کی بات ہے‘ جب سارا مسئلہ خوش اسلوبانہ ،راز دارانہ اور خیر سگالانہ طور پر طے ہو چکا ہے تو اسے ’’بے فضول‘‘ میں جنگ کرنے کی کیا پڑی ہے۔ خبری ذرائع بتاتے ہیں کہ جب ٹرمپ نے پاکستانی حکمرانوں سے ملاقات میں ثالثی کرانے کا کہا تھا تو دراصل کئی ماہ پہلے وہ ثالثی کرا چکے تھے اور سلامتی کونسل میں پاکستان نے بھارتی رکنیت کی جو حیرت ناک حمایت کی تھی۔ وہ اسی ثالثی کا حصہ تھی اور اسی ثالثی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ جنگ نہیں ہو گی۔ بھارت کو پھر بھی جنگ کی کیوں پڑی ہے؟ رہا پاکستان تو اسے جنگ کی بالکل ہی نہیں پڑی اور نہ پڑے گی۔ ہمارے خارجہ امور کے حکیم لقمان شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں نیا ڈاکٹرائن دیا ہے کہ جنگ جہالت ہے۔ پاکستان خدا کے فضل سے اچانک ہی دور جہالت سے یوں نکل آیا ہے جیسے کالی بدلی کے پیچھے سے گورا چاند۔ ستر سال سے چھائے جہل کے سائے چھٹ گئے۔ سمجھداری کی اجلی چاندی چٹک گئی۔ ہاں ایک اور طرح کی بات ہو سکتی ہے۔ ہر طرف سے لاچار اور محصور کشمیریوں میں سے کچھ لوگ کل کلاں کو تامل ٹائیگر کے نقش قدم پر چل پڑے اور بھارت کے ساتھ دو چار بڑے فوجی حادثے ہو گئے تو اسے جنگ کے لئے بہانہ مل سکتا ہے۔ ہمارے حکیم لقمان نے عید پر جو پیغام دیا تھا کہ احمقوں کی جنت میں نہ رہیں۔ تو لگتا ہے یہ پیغام پاکستانیوں کے لئے نہیں‘ کشمیریوں کے لئے تھا کہ وہ عقل کے ناخن لیں(ایسی کسی حرکت سے )باز رہیں‘ زندہ رہیں اور ہمیں بھی چین سے رہنے دیں۔ ٭٭٭٭٭ حکومت مطمئن ہے کہ ’’ثالثی‘‘ کے بعد سے کوئی عوامی ردعمل نہیں آیا۔ یعنی کوئی جلوس نکلا نہ مظاہرہ ہوا حتیٰ کہ جماعت اسلامی اور جماعت الدعوہ(کالعدم) اور لبیک کے سارے راوی بھی چین ہی چین لکھتے ہیں۔ لیکن ردعمل اور طرح کا بھی ہوتا ہے۔ حکیم لقمان کبھی کوچہ و بازار میں آئیں اور دیکھیں خلق خدا انہیں حاضرانہ کیا کہتی ہے۔ ہر دو کا پہلا کہے گا‘ بیچ دیا‘ ہر دو کا دوسرا کہے گا‘ سودا ہو گیا۔ غلط اور جھوٹ کہتے ہوں گے لیکن۔ یہ ردعمل ہی تو ہے۔