پاکستان تحریک انصاف کا تیسرا بجٹ اور تیسرا وزیر خزانہ پہلا بجٹ اسد عمر نے پیش کیا تھا، دوسرے بجٹ کی ذمہ داری حفیظ شیخ کی تھی اور اب تیسرا بجٹ شوکت ترین نے پیش کیا۔ شوکت ترین پہلے پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ اب کی بار شوکت ترین نے میلہ لوٹ لیا ہے۔ اس بجٹ کی کافی تعریف کئی گئی ہے ۔کئی ماہرین معیشت اس بجٹ کو کافی سال بعد ایک متوازن بجٹ قرار دے رہے ہیں۔ اپوزیشن نے اس بجٹ پہ کافی تنقید کی ہے اور اسے عوام دشمن قرار دیا ہے۔اپوزیشن کے بقول مہنگائی کا کوئی علاج نہیں کیا گیا اس بجٹ میں۔سرکاری ملازموں کو کوئی خاص ریلیف نہیں دیا گیا ۔ اس بجٹ کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں : ٹوٹل بجٹ488 ہزار ارب روپے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 2135 ارب روپے 37 فی صد اضافہ کم از کم تنخواہ مزدور20000 روپے گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ10 فیصد پنشن میںاضافہ 10فی صد زرعی شعبہ کی لئے 12 ارب روپے 811 ارب روپے بجلی کی ترسیل کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لئے 66 ارب روپے 1.1 ارب ڈالر ویکسین کے لئے ٹوٹل اخراجات 8487 ارب روپے میں 19 فی صد اضافہ سندھ کیلئے خصوصی گرانٹ 12 ارب روپے کرنٹ اخراجات 7523 ارب روپے گزشتہ سال اخراجات 6345 ارب روپے دفاعی اخراجات 1370 ارب روپے‘16 فی صد کل اخراجات‘ گزشتہ سال سے دو فی صد کم سود کی ادائیگی 3060 ارب روپے مالیاتی خسارہ3420 ارب روپے6.4 فی صد جی ڈی پی جی ڈی پی گروتھ ٹارگٹ4.8 فی صد افراط زر کا ہدف8.2 فی صد ایف بی آر ٹیکس ٹارگٹ 5829 ارب روپے17.4فی صد اضافہ اگر ہم بجٹ کا سر سری جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا کافی ٹیکسوں میں کمی کی گئی ہے۔ الیکٹرک کار پر ڈیوٹی 17 فی صد سے کم کر کے 1 یک فی صد کئی گئی ہے۔ 850 سی سی سے چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس کم کر کے 5۔12 فی صد کیا گیا ہے جو پہلے 17 فی صد تھا۔ چھوٹے کاروباری حضرات کے لئے سالانہ ٹرن اوور کی حد ایک کروڑ سے بڑھا کر 10 کروڑ کر دی گئی ہے۔ ایک بات جس کا بہت چرچا ہوتا تھا کہ دفاع پہ 60 فی صد خرچ ہو جاتا ہے یا 70 فی صد پہلی بار عوام کو پتہ چلا یہ تو 15 فی صد کے لگ بھگ ہے۔دفاعی اخراجات میں اس سال کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخ نہیں بڑھائے گئے۔ ایک پریشان کن بات یہ ہے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا۔پہلے ٹیکسز میں کمی ہوئی ہے تو آمدنی کا ایسا کون سا سورس ہو گا جس سے ریونیو کے اہداف پورے ہو سکتے ہیں۔ایک بات تو یہ ہو سکتی ہے کہ پٹرولیم پر ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔ڈیزل اور پیٹرول آنے والے دنوں میں 20 روپے تک مہنگے ہو سکتے ہیں مگر اس سے مہنگائی کا وہ طوفان آئے گا جس میں حکومت بھی بہہ سکتی ہے۔حکومت کے پاس دوسرا حل یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے اور ان لوگوں کوکھوجا جائے جو ابھی تک ٹیکس نیٹ میں نہیں آئے۔ سی بی آر کا امتحان اب شروع ہو گا کہ وہ کس حد تک وزیر اعظم کی امیدوں پر پورا اتر سکتا ہے۔ یہ سال بہت اہم ہے۔ اگلا سال الیکشن کا آخری سال ہو گا۔ اگر اکانومی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے تو عمران خاں آخری سال اچھا کھیل سکیں گے ورنہ تاریخ تو یہ ہے آخری چھ مہینے حکومت پر بھاری ہو تے ہیں۔ 2008 میں قاف لیگ کے آخری چند دن اب بھی لوگوں کو یاد ہیں کہ کس طرح سے بجلی اور آٹا غائب ہو گئے تھے۔ 2013 کے الیکشن سے پہلے بجلی کا بحران اپنے عروج پر تھا اور لوڈشیڈنگ نے پیپلز پارٹی کو الیکشن سے پہلے ہی ریس سے خارج کر دیا تھا۔مصدق ملک جو نگران حکومت میں تھے جب بجلی کا بحران اپنے عروج پر تھا اس وقت بجلی کے نگران تھے اور اپنی اسی کارکردگی پر وہ نواز حکومت میں مشیر رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے اس بار کیا ہو گا ۔ 1988 سے لیکر اب تک کوئی پارٹی مسلسل دو الیکشن نہیں جیت سکی اس بار تحریک انصاف کیا کرے گی۔پہلی تاریخ دہرائی جائے گی یا پاکستان تحریک انصاف نئی تاریخ لکھے گی۔کے پی کے میں تحریک انصاف یہ کارنامہ انجام دے چکی ہے۔ وہاں 2013ء اور 2018ء کے دونوں الیکشن پاکستان تحریک انصاف جیت چکی ہے بلکہ 2023 ء میں بھی اسے کوئی خاص خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان میں قومی اسمبلی کے الیکشن میں اہم کردار صوبہ پنجاب ادا کرتا ہے جو پنجاب سے جیتا ہے حکومت اسکی بنتی ہے اس بار پی ٹی آئی اور پی ایم ایل نواز میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔مریم نواز ان تین سالوں میں پاکستان مسلم لیگ نواز میں ایک نئی قوت کے طور پر ابھر کے آئی ہیں۔ اب دیکھتے ہیں وہ کس حد تک عمران خاں کو ٹف ٹائم دیتی ہیں۔ پنجاب میں کسان کا کردار بہت اہم ہے۔ اس سال گندم، چاول، مکئی اور گنا کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے اور سب اجناس کے نرخ اچھے رہے ہیں ۔کسان بہت حد تک حکومت سے خوش ہیں ۔حکومت ڈیری میں کافی اقدامات کرنے والی ہے۔ 12 ارب روپے اس مد میں رکھے گئے ہیں۔ سیمنز کی فری فراہمی ایک اچھا قدم ہے۔فوڈ سیکورٹی کے مشیر جمشیدچیمہ عمران حکومت کے ڈارک ہارس ثابت ہوسکتے ہیں۔ انکا وژن کافی جاندار ہے۔ تنخواہ دار طبقہ حکومت سے نالاں ہے۔ انکو کوئی خاص مراعات نہیں ملیں۔گزشتہ سال تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا تھا اور اب صرف دس فی صد اور وہ بھی بنیادی تنخواہ میں۔ ہاوس رینٹ اور میڈیکل میں کوئی اضافہ نہیں اور سفری الاونس میں بھی کوئی اضافہ نہیں یہ وہ محاذ ہے جہاں بجٹ نے کوئی خاص بند نہیں باندھا۔ اگر یہ لوگ احتجاج پہ اترتے ہیں تو حکومت کافی مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ ایک اور چیز یہ ہے کہ کوئی ضمنی بجٹ نہ آئے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس سلسلہ میں کافی بدنام رہی ہے۔ شوکت ترین سے امیدیں وابستہ ہیں۔ حبیب بینک کو کس طرح انہوں نے پاؤں پر کھڑا کیا اور اب آئی ایم ایف کی شرائط کو جس طرح سے انہوں نے ایک طرف کیا ہے‘ ان سے بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آخر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک اچھی خبر۔جی 20 ممالک نے 3.17 ارب ڈالر کا قرضہ اس سال کے آخر تک موخر کر دیا ہے اب حکومت کو مزید آسانی ہو جائے ۔