بجلی دوپاکستان میں کوروناکی صورتحال قابو سے باہر ہو رہی ہے۔ یہ دہائی اپوزیشن نے نہیں دی، میڈیا نے بھی نہیں دی، خود حکومت کے ایک اہم ذمہ دار نے دی ہے اور مزے کی بات! بلکہ بہت ہی مزے کی بات یہ ہے کہ یہ عزت مآب وہی ہیں جن کو پاکستان میں کورونا لانے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور یہ ذمہ داری انہوں نے اکیلے ہی نہیں نبھائی کورونا پاکستان لانے میں ان کے ساتھ ایک اور عزت مآب بھی شامل تھے۔ بعد میں کورونا پھیلانے کی ذمہ داری بھی اہم ذمہ داروں نے قریہ بہ قریہ کو بہ کو خوب نبھائی اور ایسی نبھائی کہ پنجاب کے ایک سرکاری محکمے کی خفیہ رپورٹ کے مطابق اکیلے لاہور میں کورونا گلی گلی پھیل گیا ہے اور متاثرین کی تعداد ہزاروں نہیں، لاکھوں میں ہے۔ ٭٭٭٭٭ کورونا دنیا بھر میں ختم نہیں ہو رہا ہے لیکن کم ضرور ہو رہا ہے۔ ہمارے دو پڑوسی ایران اور ترکی اس کی زد میں بہت ہی بری طرح آئے تھے، لیکن اب ترکی میں یہ قریب قریب انجام رسید ہونے کو ہے اور ایران میں بھی مرنے والوں کی شرح 20فیصد رہ گئی ہے۔ سپین میں بھی ہلاکتیں بہت کم ہو گئیں اور اٹلی میں بھی۔ امریکہ اور برطانیہ میں اب بھی لوگ بڑی تعداد میں مر رہے ہیں لیکن مہینہ بھر کے مقابلے میں یہ بڑی تعداد، قدرے کم بڑی تعداد رہ گئی ہے۔ لگتا ہے، پاکستان یہ ’’ریس‘‘ جیت لے گا کہ یہاں مرنے والوں کی تعداد اوسطاً بیس پچیس سے شوٹ کر کے چار گنا ہو گئی ہے۔ ایک ہدف، یوں کہیے کہ حاصل ہونے کی طرف، ہم سبک رفتاری سے بڑھ رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے فرمایا ہے، لاک ڈائون ویسا نہیں ہوا جیسا میں چاہتا تھا۔ یہاں کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ آپ تو فرماتے تھے کہ میں تو لاک ڈائون چاہتا ہی نہیں تھا، پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ جیسا لاک ڈائون آپ چاہتے تھے ویسا نہیں ہوا۔آپ نے فرمایا تھا، میں لاک ڈائون کا مخالف تھا، یہ تو اشرافیہ نے لگا دیا۔ اس حساب سے تو آپ یوں فرماتے کہ لاک ڈائون ویسا نہیں ہوا جیسا اشرافیہ چاہتی تھی۔بہرحال، ہمیں بیچ میں پڑنے کی کیا ضرورت۔ یہ آپ کا اور اشرافیہ کا باہمی مسئلہ ہے اور دونوں ایک ہی پیج پر ہیں۔ گویا یہ معاملہ ایک پیج کے بیچ کا ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے سچ کہا کہ دوسرے ملک اب لاک ڈائون ختم کر رہے ہیں۔ ان ملکوں نے بڑے سخت لاک ڈائون کیے، بعض نے تو کرفیو کی سی صورتحال پیدا کر دی، نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا دم توڑنے لگا، اس کا پھیلائو سمٹنے لگا۔ کیا ہم لاک ڈائون ختم کریں گے! عجیب سا سوال ہے۔ ہم نے لاک ڈائون کیا ہی کب تھا۔ ہمارے عوام نے تو بازاروں میں کورونا کی باغبانی کی تھی، اسے کھاد ڈال تھی، اس کی آبپاشی اور آبیاری کی تھی۔ اب یہ باغ، باغ و بہار ہو گیا ہے۔ برگ و بار لانے کے بعد ثمر بار ہو گیا ہے۔ اب تو ہمیں اس کی ثمر باری سمیٹنی ہے۔ وزیر اعظم نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ لاک ڈائون سے معیشت کی تباہی کا خطرہ ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ہے، ہمیں ایسا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ہمارے ہاں معیشت نام کی کوئی شے بچی ہی کہاں ہے۔ ٭٭٭٭٭ معیشت کے ذکر سے تین چار دن پہلے کا واقعہ یاد آیا۔ ایک اخبار نے صفحہ 3پر چھ کالمی سرخی، عرف میں۔ لیڈ لگائی تھی۔ یہ کہ بھارتی معیشت کو 22برسوں کے دوران کا سب سے زیادہ نقصان‘‘ ایک برخوردار نے پوچھا، یہ خبر اتنی بڑی کیوں چھاپی ہے، جواب دیا کہ حب الوطنی کا پہلا تقاضا پورا کیا ہے۔ اسی اخبار کے، بقیوں والے صفحے میںایک دو سطری خبر ٹھنسی ہوئی یوں نظر آئی جسے کوئی کاغذ کا فرسودہ ٹکڑا بند کر کے بوسیدہ دیوار کی درز میں ٹھونس دے۔ خبر یہ تھی، پاکستانی معیشت 68برس کی سب سے نچلی سطح پر آ گئی۔ اسی برخوردار نے پوچھا، یہ خبر اتنی چھوٹی اتنے ’’خفیہ‘‘ انداز میں کیوں لگائی کہ کسی کی نظر ہی نہ پڑے۔ جواب دیا، حب الوطنی کا دوسرا تقاضا۔ ٭٭٭٭ معیشت کا احوال یہ ہے کہ خود سرکاری ذرائع نے تصدیق کر دی کہ کم ترین شرح افزائش جو اس سے قبل حکومت نے بتائی تھی، وہ بھی غلط تھی، حقیقی شرح تو اس کمترین سے بھی کم ہے۔ 2019ء کی حقیقی جی ڈی پی گروتھ کا سائز 2016ء اور 2017ء 2018ء کے مقابلے میں جاری شدہ گراف میں اتنا چھوٹا نظر آیا ہے جیسے گائے کے برابر کوئی بلی کھڑی ہوئی ہو۔2020ء کی شرح کچھ یوں ہوئی کہ جو بلی ہے، وہ بلی کا بچے بن جائے گی، اتنا چھوٹا کہ چاہے تو چوہا لے بھاگے۔ ٭٭٭٭٭ خبر یہ بھی ہے کہ حکومت تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لینے جا رہی ہے، 15ارب ڈالر کا قرضہ۔ اچھی بات ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کے ذمے قرضے کی مالیت مل ملا کر ایک کھرب ڈالر ہو جائے گی۔کریڈٹ نہ سہی، ڈیٹ کے حساب سے ہی سہی، ہم کھرب ڈالرئیے تو ہو ہی جائیں گے۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے غریبوں کی حالت زار کا ذکر دکھ بھرے انداز میں کیا۔ حضور، غریبوں سے ہمدردی کا فوری تقاضہ یہ ہے کہ بجلی جو 8روپے یونٹ سے بڑھا کر 28روپے یونٹ کر دی ہے، پھر سے 8روپے پر واپس لے آئیے بلکہ اب تو تیل، ایل این جی، فرنس آئل وغیرہ سے عالمی نرخ اتنے گر گئے ہیں کہ بجلی چار روپے یونٹ ہونی چاہئے۔ آپ جب اپوزیشن میں تھے تو ہر روز جلسے سے خطاب فرماتے تھے کہ حکومت اتنی زیادہ مہنگی بجلی(8روپے یونٹ) دے رہی ہے۔ اس فرمان کو سچ مان لیا جائے اور کیوں نہ مانا جائے ۔