ملک بھر میں بجلی کی فراہمی میں ہر گھنٹے بعد تعطل اور بعض پاور پلانٹس کی بندش کے باعث شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق 500 کے وی کے چھ اور 220 کے وی کے 15 سرکٹ ٹرپ کر گئے۔ شارٹ فال بڑھنے سے لیسکو کے 450 فیڈر بند ہوگئے۔ فیسکو اور میپکو میں ہر گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ وزارت توانائی نے اس صورت حال کی وضاحت پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دھند کی وجہ سے ٹرانسمیشن لائنز ٹرپ کر رہی ہیں۔ گڈو تھرمل پاور ہائوس میں 3 یونٹ ٹرپ ہونے کی وجہ سے سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں صورت حال ابتر ہے۔ پاکستان میں کسی شعبے میں خرابیاں اس وجہ سے دکھائی نہیں دیتیں کہ بااختیار شخصیات یا حکومت کو ان خرابیوں کا علم نہیں۔ یہاں بدقسمتی سے ایسے طبقات پیدا ہو چکے ہیں جو خرابیوں، بدانتظامی اور بدعنوانی کے ماحول میں مالی فوائد اکٹھے کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت 2012ء میں پارلیمنٹ کی انرجی کمیٹی کو نیپرا کی دی گئی بریفنگ ہے۔ اس بریفنگ میں توانائی کے شعبے کو لاحق مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ توانائی بحران کی بڑی وجہ پاور پلانٹس کا غیر فعال ہونا اور کارکردگی میں عدم تسلسل ہے۔ نیپرا حکام نے اس وقت آگاہ کیا تھا کہ غیر تسلی بخش کام کرنے والے پاور پلاانٹس کو بند کرنے کی متعدد بار سفارشات کو نظرانداز کر کے حکومت ایسے پلانٹس سے بجلی پیدا کرنے پر بضد رہی ہے۔ 2012ء میں جب نیپرا حکام نے پارلیمنٹ کی توانائی کمیٹی کو بریفنگ دی تو اس وقت ملک کو مجموعی طور پر دو ہزار اکتیس میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا جس کے لیے روزانہ پانچ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی تھی۔ اس وقت پارلیمانی کمیٹی کے اراکین نے نیپرا کی بریفنگ کو غلط بیانی قرار دے کر روزانہ 10 سے 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی دہائی دی تھی۔ اسی اجلاس میں بجلی کی پیداوار میں کمی کو گیس کی قلت کی وجہ بتایا گیا۔ اس طرح کی بریفنگ پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی دی جاتی رہی ہیں۔ نومبر 2017ء میں سردیوں کے موسم میں دھند پڑنے پر لگ بھگ وہی صورت حال پیدا ہوئی جو آج جنوری 2019ء میں دکھائی دے رہی ہے۔ پورے ملک میں بجلی کی ٹرپنگ اور گھنٹوں پر محیط لوڈشیڈنگ ہورہی تھی۔ دو سال پہلے کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ حکومت نے بجلی کی مجموعی پیداوار میں 4200 میگاواٹ کم کرکے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نظام کو دبائو کا شکار بنایا۔ اس وقت بھی دھند اور سموگ کو بجلی کی فراہمی میں تعطل کا ذمہ دار قرار دیا جارہا تھا۔ سرکاری ماہرین کہہ رہے تھے کہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے اور اب یہ موسمی تغیرات میں ٹھیک کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ ان سابقہ بریفنگز اور سرکاری اجلاسوں کی گزشتہ دس برسوں کی روداد یہی بتاتی ہے کہ سرکاری ادارے موسمی تغیرات کے دوران قابل بھروسہ ڈسٹری بیوشن کا نظام ترتیب دینے میں ناکام رہے ہیں۔ تحریک انصاف شاید وہ واحد جماعت ہے جس نے لوڈشیڈنگ پر سیاست نہیں کی۔ عوام کے حافظے میں وہ تصاویر محفوظ ہیں جب شہبازشریف نے پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے مرکز کو لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور مینار پاکستان کے سبزہ زار میں احتجاجی کیمپ قائم کیا۔ 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن نے نندی پور پاور پراجیکٹ ضد کر کے تعمیر کیا۔ یہ منصوبہ جلد بازی اور حکومت کے اپنے حلقوں میں اختلافات کے باعث تنازعات میں الجھا رہا۔ ابھی تک یہ منصوبہ کام نہیں کر سکا۔ ساہیوال میں قادر آباد کے پاس کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا یونٹ لگایا گیا۔ اس یونٹ سے بھی بتائی گئی پیداوار کی بجائے نصف کی بجلی حاصل ہورہی ہے۔ ماحولیاتی حوالے سے اس منصوبے کے نقصانات کا ذکر الگ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھند تو پہلے بھی پڑا کرتی تھی، اس وقت بجلی کی فراہمی میں اتنا تعطل کیوں نہیں ہوتا تھا۔ اگر پچھلے دس سال میں ٹرانسمیشن لائنوں پر غیر معمولی دبائو پڑا ہے تو اس کی اصلاح کے لیے کس ادارے کو فرض انجام دینا تھا؟ یہ رواج ہمارے ہاں مضبوط ہورہا ہے کہ افراد اور ادارے اپنی سستی اور کام چوری کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ موسم گرما نہیں بلکہ سردیوں کے ایام ہیں۔ ان ایام میں گھروں کو گرم کرنے کے لیے گیس کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے قومی ضروریات کو مدنظر رکھ کر قطر سے ایل این جی کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت حاصل کی گئی گیس پاکستان آنا شروع ہو چکی ہے۔ دوسری طرف بجلی چوری کے معاملات ہیں۔ چند روز قبل ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک کے بعض ایسے علاقے ہیں جہاں ہر سال مجموعی طور پر 45 ارب روپے کے لگ بھگ کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ کے پی کے اور اندرون سندھ ایسے بہت سے صارفین ہیں جو مین ٹرانسمیشن لائنوں سے بجلی چوری کرتے ہیں، کراچی میں بہت سے علاقوں میں زبردستی بجلی چوری کی جا رہی ہے۔ دیرینہ دوست اور ہمسایہ چین پاکستان میں سولہ ہزار میگاواٹ کے توانائی منصوبے لگارہا ہے، ان میں سے کچھ منصوبے مکمل ہونے کے قریب ہیں، بعض مکمل ہو چکے ہیں۔ توانائی کے شعبے کے انتظامی معاملات سے آگاہ حلقوں کا کہنا ہے کہ بدانتظامی اور بدعنوانی نے اس شعبے کوبری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کا وعدہ کرتی ہے مگر مخصوص گروہ اس کے لیے ایسے مسائل کھڑے کردیتے ہیں کہ یہ بحران مزید شدید ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم کو اس سلسلے میں تفصیلی مشاورت کے بعد موثر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ موسم گرما سے پہلے عام شہریوں کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلائی جا سکے۔