حکومت نے سال کے آخر میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمتوں میں 1روپے 56پیسے فی یونٹ اضافہ کر کے صارفین پر 14ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد حکومت مشکل فیصلوں پر عوام نے بخوشی قربانیاں دی ہیں مگر بجلی گیس کے نرخوں اور بے روزگاری میں مسلسل اضافے نے اب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، جس کا اندازہ گزشتہ دنوں کابینہ کے اجلاس میں کابینہ اراکین کے بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ پر تحفظات کا اظہار ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں اکثریت کی تشویش سے یہ تاثر ابھرا ہے جیسے حکومت بیورو کریسی کی من مانیوں کے ہاتھوں بے بس ہے ۔ حکومت گیس کی قیمت میں 235فیصد اضافہ کر چکی ہے جبکہ نومبر میں نیپرا نے بجلی 2روپے 97پیسے مہنگی کی تھی گزشتہ روز ایک بار پھر 1روپے 56پیسے مزید بجلی مہنگی کر دی گئی ہے جو پہلے سے خودکشیوں پر مجبور غریب عوام سے ظلم کے مترادف ہے ۔حکومتی بے بسی کا اس سے بڑھ کر عالم اور کیا ہو سکتا ہے کہ گزشتہ روز نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں اضافے سے استثنیٰ بھی صرف 50یونٹ استعمال کرنے والے صارفین تک محدود کر دیا ہے جو پہلے 300یونٹ تھا ۔بہتر ہو گا حکومت نیپرا کی من مانیوں کو لگام دینے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لے ،تاکہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے عوام کو کچھ ریلیف ملنا ممکن ہو سکے۔