شہر شہر‘ گائوں‘ گائوں بجلی کی گھنٹوں تک غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے لوگ بلبلا اٹھے ہیں جبکہ بجلی کے نہ ہونے سے پانی کی قلت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ گزشتہ ڈیڑھ ہفتہ سے جاری ہے اور اب اس کا دورانیہ شہروں میں 10سے 12گھنٹے اور دیہات میں 16گھنٹے تک پہنچ چکا ہے جس کے نتیجہ میں عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔ حالیہ حبس زدہ اور لو کے موسم میں بجلی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، لوڈشیڈنگ کے باعث عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے اور کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں۔ حکومت ہے کہ اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ سابق ن لیگی حکومت کے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ بجلی کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام کو بہتر بنانے کے لیے حکومت 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے اور یہ کہ ہم اب 11 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سرمایہ کاری کدھر گئی ؟ادھر بجلی کا ٹرانسمیشن نظام اس حد تک بوسیدہ ہو چکا ہے کہ یہ آئے روز ٹرپ کر جاتا ہے کیونکہ یہ 15ہزار میگاواٹ سے زیادہ اضافی واٹ اٹھا بھی نہیں سکتا اوربجلی کا شارٹ فال 6510میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے اور آئے دن تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے لاتعداد گرڈ سٹیشن جواب دیتے جا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت عوام کے لیے سب سے بڑا عذاب بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے جس کا فوری حل نہ نکالا گیا تو آنے والے دنوں میں حکام کو بڑے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ چین سمیت دوسرے غیر ملکی سرمایہ کے ساتھ ساتھ آبی ذخائر کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی جا ئے اور بجلی کے منصوبوں کے لیے پہلے سے مختص رقوم سے بجلی کے جاری منصوبے مکمل کیے جائیں‘ نئی حکومت کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ وہ ملک سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرے تاکہ ملکی معیشت کو استحکام نصیب ہو اور لوگوں کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہو سکیں۔