گاہے پریشان ہوتی ہے‘ یوں لگتا ہے ریاست کرپٹ‘ بلیک میلر اور عوام دشمن مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہے‘ منی لانڈرنگ اور قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ کے مرتکب افراد کو سزا ملی نہ اب تک کسی سزا یافتہ مجرم سے لوٹی دولت اگلوائی گئی لیکن جب تک جنگ جاری ہے‘ نیب کا ادارہ اور عمران خان کا عزم برقرار ہے‘ کسی ملزم اور مجرم کے خلاف آخری اور حتمی فیصلہ نہیں آتا‘ پہلے کی طرح وہ باعزت بری ہو کر عوام کے سامنے فتح کا نشان نہیں بناتا مایوسی کی گنجائش نہیں‘ مایوسی ویسے بھی گناہ ہے اور شیطان کا طاقتور ہتھیار جو وہ انسانوں پر آزماتا ہے۔ کورونا نے صورت حال بدل دی ورنہ سیاسی کشمکش فیصلہ کن انجام کی طرف بڑھ رہی تھی اور 2018ء میں میاں شہباز شریف کی حکمرانی اور 2019ء میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی کامیابی کی پیش گوئی کرنے والوں کے خیال میں عمران خان کی حکومت اور احتساب کے عمل کا خاتمہ یقینی تھا‘ کورونا کی وبا بین الاقوامی اور مقامی منظر نامہ نہ بدلتی تو کیا ہوتا؟وثوق سے کچھ کہنا عبث ہے کہ اندازے اور پیش گوئیاں کبھی درست ہوتی ہیں‘ اکثر غلط۔ 2018ء میں میاں شہباز شریف کی انتخابی کامیابی اور 2019ء میں مولانا کے دھرنے کی نتیجہ خیزی میں کورونا نے کھنڈت ڈالی نہ کوئی کسی دوسری آسمانی آفت نے راستہ کاٹا‘ دونوں بار غلط اندازوں اور خواہشات پر مبنی تجزیوں‘ پیش گوئیوں کا نتیجہ زمینی حقیقتوں کے مطابق نکلا‘ مایوس کن اور خجالت آمیز ‘ آغاز بھی رسوائی‘ انجام بھی رسوائی۔اپریل کے بعد یار لوگ اب اگست کی تاریخیں دے رہے ہیں جب حالات کا پانسہ پلٹے گا اور ہیرو اور ولن کی پوزیشن تبدیل ہو گی‘ مگر کیوں؟ اس سوال کا جواب دینے کے بجائے دست شناس اور جوتشی ایک ہی بات کرتے ہیں کہ فیصلہ ساز مایوس ہو چکے اور میاں شہباز شریف کے رابطے بالآخر ثمر بار ہوئے۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی خاموشی کو بھی ایسی ہی کسی پیش رفت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے‘ دونوں باپ بیٹی کی خاموشی کی کوئی دوسری توجیہہ ممکن بھی نہیں۔ لیکن میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی نیب میں پیشی سے کچھ اور تاثر ملتا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نیب ترمیمی آرڈی ننس کی معیاد ختم ہونے کے بعد نیب اورحکومت کو مہلت مل گئی ہے کہ وہ احتساب کے عمل میں مزید تیزی لائے اور کورونا نے عمران خان کے علاوہ اس کی پشت پناہ قوتوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ صوبوں کی تشکیل نو اور کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ریاستی مفادات کے مطابق موثر پیش قدمی کریں ۔اٹھارہویں آئینی ترمیم میں ردوبدل کا شوشہ چھوڑ کر حکومت نے اپوزیشن کو مصروف کر دیا ہے اور اس کے شہ دماغ بنیادی تبدیلیوں کا خاکہ تیار کر رہے ہیں‘ احتساب کی دلدل میں پھنسی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت کو بخوبی علم ہے کہ حالات اس کے لئے سازگار نہیں‘ پاکستان میں عوام کو سڑکوں پر لانا ممکن نہیں‘ کوئی بیرونی قوت دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں اور پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کوئلوں کی دلالی میں دلچسپی نہیں رکھتی‘ نیب کے ہاتھ کھل چکے ‘اور اپوزیشن کے اتحاد کی کوششیں حسرت ناکام میں بدل گئیں۔ قومی سلامتی‘ استحکام‘ ملکی اتحاد و یگانگت اور ترقی و خوشحالی کے لئے بنیادی نوعیت کی اصلاحات کا بہترین وقت آ چکا ہے۔ طے صرف یہ کرنا ہے کہ موجودہ بکھری‘ مایوس‘ دل شکستہ اپوزیشن کے تعاون سے یہ اصلاحات اس سال کے آخر میں کر لی جائیں معمولی مراعات کے عوض اٹھارہویں ترمیم کے ضرر رساں حصوں سے نجات‘ صوبوں کی تشکیل نو اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے یا کورونا وبا سے نجات پانے کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد جو مضبوط و مستحکم حکومت کے قیام میں مددگار ثابت ہوں۔ بظاہر کورونا جلد ٹلنے والی آفت نہیں‘ جس ملک میں میٹرک اور انٹر کے انتخابات کرانا مشکل ہے وہاں درمیانی مدت کے انتخابات کا انعقاد آسان نہیں‘ ہوئے بھی تو یہ یکطرفہ ہوں گے کہ صرف تحریک انصاف اور عمران خان میدان میں ہوں گے جو گزشتہ دو سال کے دوران مسلسل انتخابی مہم میں مگن ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حالت ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے سے مختلف نہیں۔دونوں کے پاس کوئی بیانیہ ہے نہ عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے زاد راہ‘ لاک ڈائون اس وقت انتہائی غیر مقبول اور ناپسندیدہ عمل ہے جس پر زور دے کر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت عوام اور تاجر و صنعت کار طبقے کی ناراضگی مول لے رہی ہے جبکہ دونوں جماعتیں لاک ڈائون کے ستم رسیدہ طبقات کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں بھی ناکام نظر آتی ہیں حکومت نے ڈیڑھ دو سو ارب روپے تقسیم کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور لاک ڈائون پر اس کی حکمت عملی بظاہر کامیاب نظر آتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان امریکہ و برطانیہ تو درکنارایران کی صورت حال سے دوچارہے نہ عوام کورونا سے خوفزدہ ‘ عقلمند بحران سے مواقع کشید کرتے ہیں اور مخالفین عمران خان پر یہی الزام عائد کرنے لگے ہیں کہ اس نے کورونا کے بحران سے سیاسی منفعت حاصل کرنے کی پالیسی اپنائی۔ کسی نہ کسی حد تک یہ درست ہے اگر اٹھارہویں ترمیم‘ نئے صوبوں کی تشکیل اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے فوائد بھی اس بحران سے حاصل کر لئے جائیں تو حرج کیا‘ آم کے آم گٹھلیوں کے دام یہی شر سے خیر کا ظہور ہے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہونے لگا ہے‘ حالات کا فائدہ اٹھا کر کالا باغ ڈیم کے حوالے بھی پیش کر لی جائے تو کون رکاوٹ ڈال سکتا ہے؟ عوام کو علم تو ہو ہی گیا ہے کہ گزشتہ تیس چالیس تک انہیں کبھی صوبوں کے حقوق ‘کبھی تخت لاہور و اسلام آباد کی زیادتیوں اور کبھی کسی شہر و صوبے کی غرقابی کے نام پر بے وقوف بنا کر سیاسی جماعتوں کے قائدین لوٹ مار کرتے اور بیرون ملک اپنی جائیدادوں‘ بنک اکائونٹس میں اضافہ کرتے رہے۔ اربوں ڈالر کے قرضوں سے تعلیم اور صحت کے شعبے میں کچھ خرچ ہوا نہ سستی بجلی اور زرعی ضرورتوں کے لئے پانی کے ذخیرے تعمیراور نہ صوبائی خود مختاری سے گھر کے دروازے پر شہری حقوق ملے۔ لوہا گرم ہے تو ضرب لگانے میں دیر کیوں؟ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں گے۔