کرہ ارض پر بقاء حیات سمندر سے مشروط ہے۔ خوراک کا حصول ہو، نئے خطوں کی تلاش یا پھر تجارت ،صدیوں سے انسان سمندروں پر انحصار کرتا آیا ہے۔ موسموں کا تغیر بھی سمندروں کا مر ہون منت ہے ۔ دورِ حاضر میں 90 فی صد تجارت بحری راستوں سے کی جاتی ہے۔ دنیا کے گرد لپٹے اس نیلے غلاف کو 5 بڑے حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے جن کو بحر الکاہل , بحراوقیانوس , بحر ہند, بحر منجمد شمالی اور بحر منجمد جنوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ان تمام میں بحر ہند وہ واحد آبی ذخیرہ ہے جو تین اطراف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ بحرِہند کا کُل رقبہ تقریباً 68.5 ملین اسکوائر کلومیٹر ہے اوریہ کرئہ ارض کا تقریباً 14 فی صد حصہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کے ساحلی علاقے آسٹریلیا سے لے کر سائو تھ افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بحرِہند میں دنیا کے چند اہم ترین آبی گزرگاہیں موجود ہیں ۔ ان میں آبنائے ہرمز، آبنائے ملاکا ، بحر قلزم اور خلیج عدن کی آبی گزرگاہیں شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی کل تجارت کا 50 فی صدسے زائدحصہ ان راستوں سے گزر تا ہے۔اس کے علاوہ دنیا کی 46 فی صد تیل کی ترسیل بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔ بحرہند کے ذریعے ہونے والی تجارت کی خاص بات یہ ہے کہ تقریبا 80 فی صد تجارتی سامان کی ترسیل یورپ, امریکہ , جاپان اور دوسرے غیر علاقائی ممالک کے درمیان ہوتی ہے جب کہ خطے کے ممالک کے مابین ہونے والی تجارت کا حجم صرف 20 فی صد ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بحر ہند نے ہمیشہ بین الاقوامی طاقتوں کے لئے ایک ایسے میدان کا کام سر انجام دیا ہے جہاں طاقتور ملک اپنا زورِ بازو منوانے اور عالمی سیاست پر اثر انداز ہو نے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 21ویں صدی کے اوائل میںیہ خطہ بین الاقومی سیاسی ایوانوں میں ایک خاص اہمیت حاصل کرگیا۔ جس کی کئی وجوہات ہیں۔پہلی اور سب سے اہم وجہ خطے میں دنیا کے 56 فی صد خام تیل کے ذخائر کی موجودگی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتیں توانائی کے حصول کے لئے مشرق وسطی کے ممالک سے تیل درآمد کرتی ہیں۔ EIA(Energy Information Administration) کی رپورٹ کے مطابق بھارت، جاپان، مغربی یورپی ریاستیں اور امریکہ کو درآمد کئے گئے خام تیل کا بالترتیب60، 90، 50 اور 30 فیصد خلیج فارس کے بحری راستوں سے گزرتاہے ۔مشرقِ وسطـیٰ سے جنوبی کوریا کو درآمد کئے جانے والا 80 فی صد اور چائناکا تقریباً 70 فی صد خام درآمدی تیل بھی ان ہی بحری راستوں سے گزرتا ہے۔EIA کی ایک رپورٹ میںانکشاف کیا گیا ہے کہ2030ء تک چین کی تیل کی درآمدات میں 5 گنا( تقریباً گیارہ ملین بیرل یومیہ) اضافہ ہونے کی امید ہے اور اس ضرورت کا تقریباً دو تہائی حصہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے درآمد کیا جائے گا۔ قدرتی گیس کے 40 فی صد ذخائربھی اسی خطے میںدریافت ہوئے ہیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق یومیہ 17ملین بیرل تیل آبنائے ہرمز کے ذریعے بر آمد کیا جاتا ہے۔ ــ اس کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے قدرتی گیس بھی LNG ٹینکر کے ذریعے اسی راستے سے کئی ممالک کو مہیا کی جاتی ہے ۔ توانائی کے حصول کی اس جنگ میں ذرائع کی منتقلی، یعنی تیل کے بجائے گیس پر بڑھتے ہوئے انحصار نے بحرہند کو اہم عالمی اقتصادی مرکز بنادیا ہے۔ عصرِحاضر میں درپیش سمندری خطرات کی نوعیت بین الاقوامی ہے ۔ کوئی بھی ملک تنہا ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ آنے والے دور میں بحر ہند سے منسلک سمندری خطرات اور خدشات میں اضافے کا امکان ہے اس کی اہم وجہ توانائی کے ذخائر پر عالمی معیشت کا انحصار ہے ۔خطے کو درپیش سب سے اہم خطرہ سمندری گزرگاہوں کی حفاظت اور محفوظ جہاز رانی کو یقینی بنانا ہے۔اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ سالانہ ایک لاکھ سے زائدمال بردار جہاز بحرِہند سے گزرتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے صومالی قزاقوں کی کارروائیاں اخباروں کی شہ سرخیوںمیں نمایا ں رہی ہیں۔جہازوں کے اغوا کے نت نئے انداز اور سمندروں پر صومالی قزاقوںکے پھیلائو نے گشت کی آزادی اور بحری راستوں سے سامان کی ترسیل کو خطرے سے دوچار کردیاہے۔ ان خطرات کے سدِباب کے لئے امریکہ اور نیٹوسمیت دیگر ممالک کی بحری افواج بین الاقوامی مشن کے تحت علاقے میں گشت کر رہی ہیں۔ ان میں CTF 151, EUNAVFOR ,CTF 150 اورStanding NATO Maritime Group شامل ہیں ۔ ان افواج کے بحری بیڑے نہ صرف قزاقوں کو پکڑنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی آزادی رکھتے ہیں بلکہ علاقے سے گزرنے والے کسی بھی مال بردار جہاز کو علاقے سے باحفاظت گزارنے کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں۔ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ قزاقی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ امر قابلِ فخر ہے کہ پاکستان خطے کا وہ واحد ملک ہے جو سب سے پہلے یعنی2004ء میں بین الاقوامی افواج کے مشن CTF 150 کا حصہ بنا ۔ اسی طرح پاکستان CTF 151کا بھی ممبر ہے۔ 2018ء میں پاک بحریہ نے ریجنل میری ٹائم سکیورٹی پٹرول کے اقدام کا آغاز کیا ہے جو بحر ہند کے خطے میںبحری قذاقی ، دہشت گردی ، انسانی اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کی روک تھام میں بہت موثرکردارادا کر رہا ہے۔اس اقدام کے ذریعے پاک بحریہ کے جہاز ہر وقت سمندر میں محوِ گشت رہتے ہیں۔ حال ہی میں پاک بحریہ نے بھارتی بحریہ کی آبدوز کا بروقت سرا غ لگایا اور اسے پاکستانی پانیوں میں داخل ہونے سے روک کر بھاگنے پر مجبور کردیا ۔قبل ازیں ، 14نومبر 2016ء کو بھی پاک بحریہ نے پاکستان کے خصوصی اقتصادی زون میں بھارتی بحریہ کی آبدوز کاسراغ لگایا تھا ۔ یہ واقعات پاک بحریہ کی کڑی نگرانی اور پیشہ وارانہ مہارت کے عکاس ہیں اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت میں پاک بحریہ کے عہدوعزم کا مظہر ہے۔ پاکستان نیوی کی ان ہی کوششوں کی وجہ سے پاکستان کی سمندری حدود کو (High Risk Area) کی فہرست سے نکال کربین ا لاقوامی تجارت اور جہازرانی کے لیے محفوظ ملک قرار دے دیا گیا ہے۔ان اقدامات سے جہاں ملکی وقار میں اضافہ ہوا ہے وہیں پرملکی معیشت اور میری ٹائم سیکٹر کی ترقی میں مدد ملے گی۔ اسی طرح امید کی جا رہی ہے کہ پا ک چائنہ اقتصادی راہداری سے گوادر اور اس سے ملحقہ ساحلی علاقوں میں معاشی ترقی کی نئی راہیں کھلیںگی ۔