گزشتہ کالم ’’سیاست میں وفاداری‘‘ میں فاروق لغاری کے ’’صدر‘‘ منتخب ہونے کے ضمن میں ووٹوں کی خریداری کا بھی ذکر تھا، ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی دو درجن ووٹ خریدے گئے، یہاں صرف تین سینیٹرز کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے ووٹ کا سودا کیا، ان میں دو کا تعلق بلوچستان اور ایک صوبہ سرحد سے تھے۔ بلوچستان کے سینیٹر ’’لونی‘‘ کی کہانی ان کی زبانی ، وزیر اعظم کے شوہر آصف زرداری نے ہم تین سینیٹرز کے ساتھ پچاس پچاس لاکھ روپے کے عوض ووٹ کا سودا طے کیا ، اگلے دن ہمیں وزیراعظم ہاؤس طلب کیا اور دس دس لاکھ روپے ادا کرتے ہوئے زرداری صاحب نے کہا ، گھر میں زیادہ کیش نہیں ہے، باقی ادائیگی انتخاب سے پہلے کردی جائے گی، انتخاب سے دو تین دن پہلے میں نے ان سے ملاقات کی اور باقی رقم کا تقاضا کیا تو کہنے لگے کہ کیش تو نہیں ہے ، آپ باقی رقم کے عوض کوئی کام کروالیں،چنانچہ میں نے کسٹمز کے محکمے میں کلکٹر کسٹمز کے لیے انہیں ایک نام دیا کہ اس شخص کو کوئٹہ میں کلکٹر بنادیا جائے تو میرا حساب بے باک ہوجائے گا، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، ہم آپ کے بندے کا نوٹیفکیشن جاری کردیںگے۔ باقی دونوں دوستوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ ہوگیا، چنانچہ انتخاب سے ایک دن پہلے میں نے پھر ملاقات کی اور تعیناتی کے احکامات پر اصرار کیا تو مجھے صبح تک انتظار کرنے کو کہا گیا۔ اگلی صبح ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے میرے مطلوبہ شخص کے لیے کلکٹر کسٹمز کے احکامات کا نوٹیفیکیشن مجھے دے دیا گیا،شام ہوئی، فاروق لغاری صدر منتخب ہوگئے، اور ان کی کامیابی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد مجھے فراہم کیا گیا نوٹیفیکیشن منسوخ ہوچکا تھا اور میرے دوسرے دوساتھیوں کا بھی حشر اس سے ملتا جلتا ہی تھا۔ پارلیمنٹ کے ممبران اپنا ووٹ فروخت کرتے ہیں، وزیراعظم کے ایماء پر ان کا شوہر جو خود ممبر اسمبلی بھی ہے صدر کے چناؤ کے لیے ووٹ خریدتا ہے، بکنے والے ممبران پارلیمنٹ کے ووٹوں سے پاکستان کا ’’صدر‘‘ منتخب ہوتا ہے۔ گزشتہ کالم میں یہ بھی ذکر ہوا کہ وسیم سجاد کہنے لگے ، سیاست میں توازن بگڑ گیا ہے ، یہ مدتوں درست نہیں ہوسکے گا، پیپلزپارٹی اپنی مرضی سے فوج کا سربراہ لے آئے گی، اگلا چیئرمین سینیٹ بھی بنانے میں کامیاب ہوگئی تو قوم کو مدتوں آصف زرداری اور بے نظیر ایسے جوڑے کو بھگتنا پڑے گا۔ عرض کیا ، نہیں ایسا ، ہرگز نہیں ہوگا، یہ بات لکھ رکھئے زیادہ مدت نہیں گزرے گی کہ فاروق لغاری کے ہاتھوں اس حکمران جوڑے کو واسطہ پڑنے والا ہے، ایک الگ اور جدا قسم کے فاروق لغاری سے جو پیپلز پارٹی کا ادنیٰ کارکن نہیں ، طاقتور صدر پاکستان ہیں۔ وسیم سجاد بے یقینی سے دیکھنے لگے، عرض کیا کہ قوت واقتدار کی الگ نفسیات ہیں،طاقت ، زیادہ طاقت، اقتدار ، زیادہ اقتدار، دولت ، مزید لامحدود دولت کی حوس پیدا کرتی ہے، خیال رہے کہ فاروق لغاری خود قبائلی سردار ہیں، بے نظیر ایک وڈیرے کی بیٹی جو حسن اتفاق اور ایوب خان کی مہربانی سے سیاست میں نمایاں ہوکر ملک کا وزیراعظم بن گیا، ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہر ایک سے ذاتی وفاداری کا تقاضا کرتی ہے۔ فاروق لغاری قبائلی سردار ، بلوچ سرداروں میں سردار کی حیثیت آمر مطلق سی ہے ، کوئی اسے چیلنج نہیں کرسکتا ، فاروق لغاری 58-2-Bکے اختیارات کے ساتھ طاقتور صدر ہیں جو وزیر اعظم کو کسی بھی وقت گھر بھیج سکتا ہے، بے نظیر حسبِ سابق صدر پاکستان سے ذاتی وفاداری کا تقاضا کرے گی، اس کے خیال میں ناجائز ہتھکنڈوں سے ووٹ خرید کر انہیں صدر مملکت کے اہم منصب پر بٹھایا گیا ہے، چنانچہ انہیں وفاداری کے ساتھ ساتھ احسان مند رہتے ہوئے بلا چوں وچرا احکامات ماننے ہوںگے ۔ لیکن فاروق لغاری بلوچ سردار اور طاقتور صدر کی حیثیت سے پانی کا رخ اپنی طرف مڑتا ہوا دیکھنا چاہیں گے، انہیں اپنی سرداری کا بھرم اور اپنی ساکھ بنانے کا خیال رہے گا، چنانچہ دونوں کی اناؤ ں میں تصادم ناگزیر ہے اور یہ تصادم آپ بہت جلد برپا ہوتا دیکھیں گے، یہ قوت واقتدار کی نفسیات کا لابدی تقاضا ہے۔ گزشتہ کالم میں تیسرا اشارہ راقم کے ووٹ کے بارے میں تھا ، اس صدارتی معرکے میں راقم الحروف کا ووٹ وسیم سجاد کے لیے نہیں تھا، باوجودیکہ وہ میرے دوست تھے، خوشگوار ، شریف النفس مگر نواز شریف کا امیدوار ہونے کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی ووٹ کا حق فاروق لغاری کے لیے استعمال کرنا پڑا، ویسے فاروق لغاری کی ذاتی شہرت بہت اچھی تھی، پرہیز گار ، تہجد گزار ، دیانتدار۔ یہی ایک ووٹ بعد میں بے نظیر حکومت کے لیے بھاری پڑنے والا تھا۔ ہوا یہ کہ افواج پاکستان کے معروف جنرل اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے راقم الحروف کو ایک فائل دیتے ہوئے کہا ، دیکھئے ! اس جوڑے (بے نظیر اور زرداری)کو اقتدار میں آئے زیادہ دن نہیں گزرے مگر اس فائل کو پڑھیے، صرف ایک ادارے ’’رائس ایکسپورٹ کارپوریشن ‘‘ میں زرداری صاحب نے کتنا بڑا گھپلا کرڈالا ہے، براہ کرم ! آپ اس پر کچھ کیجیے ۔خوش قسمتی سے ایکسپورٹ کارپوریشن میں میرے جاننے والے ایک اہم عہدے پر تعینات تھے، انہیں فائل دکھائی تو انہوں نے اس بدعنوانی کی توثیق کردی۔ چنانچہ صدر پاکستان صدر پاکستان فاروق لغاری سے ملاقات کی ، فائل ان کے سامنے رکھی اور عرض کیا کہ وسیم سجاد سے ذاتی دوستی کے باوجود میرا ووٹ آپ کے لیے تھا، سن رکھا تھا کہ آپ شریف النفس ، ایماندار اور اللہ سے ڈرنے والے ہیں،آپ کی ناک کے نیچے یہ ہورہا ہے، آپ اس کا نوٹس لیجیے ، انہوں نے فائل پر ایک نظر ڈالی اور کہا ،بہتر ہے کہ آپ محترمہ وزیراعظم سے ملاقات کرکے یہ مسئلہ ان کے سامنے بھی اٹھائیں۔ عرض کیا ، کیا آپ کے خیال میں بے نظیر اور ان کے شوہر آصف زرداری الگ ہیں؟نہیں، یہ سب کچھ ان کی ملی بھگت اور رضامندی سے ہورہا ہے۔ آپ کو ووٹ دیا ، آپ صدر پاکستان ہیں،ضروری ہے کہ آپ ریاست اور مملکت کے مفادات پر پہرہ دیں۔ ہم لوگ سابق صدر غلام اسحاق کے پاس جب کوئی شکایت لے کر جاتے تو وہ فوراً اس کا نوٹس لیا کرتے تھے، متعلقہ شخص یا ادارے کو خط لکھتے ، یا ذاتی طور پر حاضر ہوکر وضاحت کے لیے کہتے ۔ چنانچہ ہم آپ سے بھی اسی طرح کی توقعات رکھتے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ میں اس کی وضاحت طلب کروں گا۔ ایوانِ صدر سے نکل کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا، ان دنوں F-10اسلام آباد میں ایک گھر کرائے پر لے رکھا تھا، گھر پہنچا تو ملازم یونس نے کہا ، آپ کے لیے زرداری صاحب کا فون تھا، وہ بات کرنا چاہتے ہیں، تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ فون کی گھنٹی بجی ، فون اٹھایا تو دوسری طرف سے زرداری صاحب کی آواز سنائی دی۔ چوہدری صاحب! آپ گھر تشریف لے آئیں، آج دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیے۔ دال حاضر کروں گا، آج کے لیے معذرت کی اور معاملے کو اگلے دن تک ٹال دیا۔ (گذشتہ کالم میں ایک غلطی کی تصحیح فرمالیں، مذکورہ انتخابات میں بے نظیر کی حکومت مرکز میں تھی اور پنجاب میں پیپلز پارٹی اور حامد ناصر چٹھہ کی مسلم لیگ نے مخلوط حکومت بنائی جس کے وزیراعلیٰ منظور وٹو تھے۔)