کتابوں سے متعلق یہ خوب صورت ترکیب راجھستان (ٹونک) کے معروف مزاح نگار جناب مختار ٹونکی کی ہے لیکن ذیل میں زیرِ بحث آنے والی کتابیں میری اپنی پسند ہیں۔ پہلی کتاب ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کی ’اُردو ادب: ماحولیاتی تناظر‘ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ زیرِ بحث موضوع عالمی ماحولیات ہی ہے، جس کا سب سے بڑا شکار ہمارا پیارا ملک پاکستان ہے۔ لاہور، جسے کبھی ’میرا سوہنا شہر لاہور‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، آج ہماری بد تربیتی و بد ترتیبی کی بنا پر آلودگی کا عالمی چیمپئن ہے۔ ثقافت کا سب سے بڑا نمایندہ شہر، کثافت کا علمبردار بنا بیٹھا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ انسانی ترقی میں در آنے والی بے احتیاطی یا جلد بازی فطرت پہ ہمیشہ برے انداز میں اثر انداز ہوتی ہے۔ صنعت کا غیر ذمہ دارانہ فروغ، ماحول کے روگ کا سبب بنتا ہے۔ آج دنیا کے بڑے سے بڑے ادیب، شاعر کی تصانیف اٹھا کے دیکھ لیجیے، وہ سب کے سب فطرت پہ نثار اور پھولوں، پودوں، درختوں سے دُلار کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسلم کولسری کا کیا خوبصورت شعر ہے کہ: چور ، شکاری ، لکڑہارا ، سادھو ، جوگی ، شاعر کون تمھارے ہاں سے لَوٹا خالی ہاتھ درختو! ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی نے ہماری اسی کوتاہی کو ادب کے آئینے میں پیش کر کے ہمیں حقیقت کا آئینہ دکھایا ہے۔ کتاب سنگِ میل کی اشاعت ہے۔ ہماری تہذیب کا دوسرا بڑا المیہ رنگ، نسل، قومیت، علاقے، مذہب، فرقے اور ذات پات کی آڑ میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتی انسانیت ہے، جس کا ڈاکٹر غلام اصغر خان نے اپنی تازہ ترین تصنیف ’نظریۂ قومیت: عالمی و مقامی تناظر‘ میں نہایت مدلل جائزہ لیا ہے۔ علاوہ ازیں وہ قوم اور قومیت کے خصائص، اس کے نامیاتی اجزا، قومیت کے فوائد و نقصانات، نیز قومیت کی اقسام کو مذہبی، تاریخی، ثقافتی، لسانی، نظریاتی اور علاقائی تناظر میں عمدگی سے زیرِ بحث لائے ہیں۔ پروفیسر غلام اصغر خان اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور میں اُردو زبان و ادب کے استاد ہیں، انھوں نے ایک ہی آدم سے جنم لینے والی نوعِ انسانی کہ جس میں کائنات کے سب سے بڑے دین اسلام کے مطابق تقویٰ اور کردار کے علاوہ تفریق کا کوئی دوسرا معیار نہیں ہونا چاہیے، کی دھڑا بندیوںکا بغور مشاہدہ، مطالعہ کیا ہے۔ ان کے نزدیک نسلِ آدم کے حصے بخرے کرنے میں شدت پسندی اور جہالت کو سب سے زیادہ دخل ہے، جس کے خاتمے کے لیے تہذیبوں کے درمیان مکالمہ ضروری ہے ۔ کتاب اور مصنف کے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں جذباتیت کی بجائے دلائل اور آگہی کو رہنما بنایا گیا ہے۔ آج کی تیسری کتاب لندن میں مقیم، وکالت کے پیشے سے وابستہ جناب انعام رانا کے متفرق موضوعات پر بے دھڑک اور دلچسپ انداز میں لکھے نثر پاروں کا مجموعہ ’بیانیے کی مومی ناک‘ ہے۔ مقامی تعصبات سے دُور ہونے کی بنا پر رانا صاحب نے بعض تلخ حقائق اور چیختے، چٹختے بیانیوں کو اظہار کی آزادی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بعض نازک سماجی و ثقافتی موضوعات پر بظاہر اُن کے اسلوب کا ٹانکا ٹوٹا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت ہے کہ ہماری نظروں کو حالات حاضرہ کا منظرنامہ ہمیشہ ایک مخصوص بلکہ مقامی اور جذباتی زاویے ہی سے دکھایا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم وطنِ عزیز میں پیش آنے والے کسی بھی واقعے یا وقوعے کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہمیںحادثات کی اصل صورتِ حال جاننے کی صلاحیت سے بھی محروم ررکھا گیا ہے۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے تمام مقامی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی حالات کی سچی اور کڑوی تصویریں پیش کر دی ہیں لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ کہیں بھی ان کی حب الوطنی مشکوک نہیں ہوتی۔ تحریروں کے مزے دار عنوانات اور چٹخارے دار اسلوب نے کتاب کی مطالعاتی رغبت (Readability) میں اضافہ کر دیا ہے۔ آخری دونوں کتابیں عکس پبلیکیشنز کا دل رُبا عکس ہیں۔ میرے حالیہ مطالعے کا چوتھا تجربہ ماریہ اسلم کی ’ محبت کا تجسیم گر‘ ہے، جو اصل میں لمحۂ موجود کے مقبول ترین ڈراما نگار اور حالاتِ حاضرہ کے شعلہ بیان مبصر جناب خلیل الرحمن قمر کی ڈراما نگاری کا تفصیلی اور محبت بھرا تجزیہ ہے۔ ماریہ اسلم راولپنڈی کے کسی کالج میں اُردو کی استاد ہیں اور مقالہ بھی کسی نصابی ضرورت کے پیشِ نظر تحریر کیا گیا ہے لیکن تین سو بیس صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کہیں بھی تحقیقی جبر کا شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ تخلیقی تجربے کی بازگشت سر چڑھ کے مکالمہ کرتی ہے۔ کتاب کا مطالعہ مصنفہ کے اس احساس پہ مُہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے کہ ’اس کتاب کو پڑھتے ہوئے آپ ایک ایسی لڑکی سے متعارف ہوں گے، جس نے محبتیں سمیٹ کر انھیں سنبھالنے کا ہنر سیکھ لیا۔ قدرت اللہ شہزاد کے بقول ’ان کی ذہنی ترنگ صفحۂ قرطاس پر لفظوں کا روپ دھارتی ہے تو شعور و آگہی کی حسن آمیز لطافتوں سے روشناس کراتی ہے۔‘ پھر ہمارے محب جناب جبار مرزاکی محبتِ ثلاثہ یعنی معروف سائنسدان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر کی زیست اور کارناموں کا احاطہ کرتی ’’پاکستان کا آخری بڑا آدمی‘ اُن کی اپنی سرگزشت ’پہل اُس نے کی تھی‘ اور اپنے دل کی رانی، یعنی اپنی محبوبہ نما بیوی شائستہ جبار رانی کی ناگہانی موت پر محبت کی روشنائی سے لکھی گئی سوانح ’جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں‘ بھی میری مطالعاتی اشتہا کا مرغوب کھاجا رہی ہیں۔ اسی طرح جناب شاعر علی شاعر کی ارسال کردہ ملکہ پکھراج کی بپتا ’بے زبانی زباں نہ ہو جائے‘ نے بھی خوب مزہ دیا، جس میں کشمیری خواتین اور سکھ نوابین کی زندگی کو ایک نئے زاوئیے اور دبنگ انداز سے اجاگر کیا گیا ہے۔ کراچی ہی سے محترمہ نشاط یاسمین کی کہانیاں ’سرخ لکیریں‘، ناول ’رُود کوہی‘ اور ’ایک سرکش پرندے کا سفرنامہ‘ بھی خاصے کی چیز ہیں۔ اسی طرح خوبصورت شاعر، نقاد اور ایجوکیشن یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر نبیل احمد نبیل کی ’مجید امجد: ایک تجزیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین‘ بھی میرے سرہانے دھری ہے، جس سے گاہے گاہے مجید امجد کی شاعری، ٹالسٹائی کے ناولوں،فیض کی انفرادیت اور شبلی نعمانی کے تہذیبی مباحث کا ڈاکٹر نبیل کے تجزیے کے ساتھ لطف اٹھاتا ہوں۔ علامہ عبدالستار کی جانب سے موصول جناب حسن نثار کی ’بی بی، بابو، اور بے بس عوام‘ بھی ہمارے بہت سے ملکی مسائل کے اسباب کی کہانی سناتی ہے۔ افسانچوں کی مہک لیے ہمارے رفیقِ کار اور متحرک ادبی شخصیت ڈاکٹر شاہد اشرف کی ’ مراقبے کے بعد‘ بھی جدید فکشن کی اہم نمایندہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب ہمیشہ سے میری اولین ترجیح رہی ہے اور مجھے اپنا یہ موقف بار بار دہرانے میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ: زمانہ جب بھی کوئی چال چلنے والا ہو یہی کتاب میرا آخری حوالہ ہو