برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر ایک طویل عرصے تک برطانیہ کی وزیر اعظم رہی ہیں وہ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں جو گیارہ سال تک برسراقتدار رہیں انہوں نے بڑے بڑے فیصلے کئے جن کا برطانیہ ہی نہیں یورپ کی سیاست اور معیشت پربھی اثر پڑا، انہیں ان دلیرآنہ فیصلوں کی وجہ سے آئرن لیڈی بھی کہا جاتاتھا لیکن دلچسپ بات یہ کہ اس آئرن لیڈی کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ ذہانت کے اعتبار سے بس ایک اوسط درجے کی ہی خاتون ہیں کوئی بہت ذہین فطین سیاست دان نہیں،یہ بات ایک صحافی نے ان سے پوچھ بھی لی،اس نے برطانوی وزیر اعظم سے کہا کہ سنا ہے کہ آپ کی کامیابی کے پیچھے آپ کے مشیروں کا ہاتھ ہے آپ تو بس ایک عام سی اوسط درجے کی ذہانت رکھنے والی خاتون ہیں،تنقید کے نشتر لئے ہوئے اس چھبتے سوال پر آئرن لیڈی مسکرائیں اور رپورٹر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گویا ہوئیں ’’انہیں مشیر بھی تو میں نے رکھا ہے ‘‘۔ وزیر اعظم کے مشیروں اور ’’بیربلوں ‘‘ کی طویل فہرست میں مولانا طاہر اشرفی اور تابش گوہر جسے ’’گوہر نایاب‘‘ کا اضافہ دیکھ کرحیرت نہیں ہوئی کہ اس دور میں حیرت کے سارے ہی مرحلے طے ہوچکے ہیں، تابش گوہر کراچی کی کے الیکڑک کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں، انہوں نے اہل کراچی کو ’’تہجد گزار‘‘ بنا چھوڑا تھا، لوڈ شیڈنگ کی لعنت تابش گوہر کے دور میں عام ہوئی، ان دنوں تابش گوہر کے والدین کاکراچی میں سب سے زیادہ ذکر ہوتا تھا،جیسے ہی بجلی گئی تاریکی ہوئی آواز آتی تھی۔وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی آفیشل ویب سائٹ میں ان نئے ’’بیربلوں ‘‘ کے پانچ مشیروں اورصرف چودہ معاونین خصوصی کے ساتھ نام موجود نہیں کیوں کہ یہ اعزازی طور پر کام سرانجام دیں گے لیکن یہ اعزاز ہی بہت کافی ہے، مولانا طاہر اشرفی صاحب مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں گے اور تابش گوہر صاحب توانائی کے شعبے میں وزیر اعظم کی معاونت کریں گے،کے الیکڑک کی انتظامیہ نے تابش گوہر کی تقرری پربانچھیں پھیلاتے ہوئے مبارکباد دی ہے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یادش بخیر سال بھرپہلے پارلیمنٹ لاجز میں سینیٹر حاصل بزنجو مرحوم سے ملاقات ٹھہری ، نوجوان صحافی حافظ طارق محمود نے ان کا انٹرویو کرنا تھا،ہم بھی ساتھ تھے کینسر سے لڑنے والے بزنجو صاحب نے جو دھواں دھار انٹرویو دیا سو دیا انٹرویو کے بعد وہ کہنے لگے کہ اس حکومت کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں، یہ اپنے لئے خود ہی کافی ہے حکومتیں اپوزیشن سے بنا کر رکھتی ہیں، تعلقات استوار رکھے جاتے ہیں، الجھایارکھا جاتا ہے کہ وہ کوئی تحریک نہ چلاسکیںاوروزیر اعظم کے مشیروں کا یہی کام تو ہوتا ہے ان کی چکنی چپڑی باتیں نمائشی مسکراہٹیں ،مصافحے معانقے نشستیں اپوزیشن کو گھیرے رکھتی ہیں لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ وزیر اعظم ایوان میں اپوزیشن ارکان سے ہاتھ تک ملانا پسند نہیں کرتا،رہی سہی کسر مراد سعید،شہبازگل اور فیاض الحسن چوہان پورے کر دیتے ہیں،یہ اصحاب سیاسی مخاصمت کو ذاتی رنجش میں ڈال کر ہاون دستہ اپوزیشن کے حوالے کردیتے ہیں، اس وقت وزیر اعظم کو مذہبی ہم آہنگی کے لئے کسی مشیر کی نہیں بلکہ سیاسی ہم آہنگی کیلئے کسی تگڑے مشیر کی ضرورت ہے، جو کوئٹہ سے اٹھنے والے اپوزیشن کے طوفان کی تدبیر کرسکے ۔ اپوزیشن کی اس بڑی چال کے لئے کوئٹہ کا انتخاب بڑا معنی خیز ہے،عموما سیاسی تحریک کے آغاز اور مسلز دکھانے کے لئے کراچی اور لاہور کا انتخاب کیا جاتا ہے لیکن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے سیاسی ہلچل اور گہما گہمی سے دور کوئٹہ کا انتخاب کیا ہے جو مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی کا ہوم گراؤنڈ ہے،بلوچستان کی پشتون بیلٹ میںہر مسجد جمعیت علماء اسلام کا مورچہ اور مدرسہ دفتر ہے یہاں جلسہ کرنے کے لئے مولانا کو کسی مہم کی ضرورت نہیں مولانا وضو کے لئے آستینیں چڑھاتے ہوئے عبدالٖغفور حیدری سے کہیں کہ کیا خیال ہے اک جلسہ نہ ہوجائے تو وضو کے بعد گیلے پاؤں جوتے میں ڈالنے تک وہاں میدان بھرا جا سکتا ہے، چمن سے کچکول تک کا یہ پشتون بیلٹ مولانا کے لئے بڑا سازگار ہے، اس کے بعد رہی سہی کسر سرحدی گاندھی عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے محمود خان اچکزئی پوری کر سکتے ہیں،پاکستان کے حوالے سے مخصوص سوچ اور اسٹیبلشمنٹ کے کٹر مخالف محمود خان اچکزئی کو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف آباد پشتونوں کی حمائت حاصل ہے،وہ پشتونستان کے حامیوں میں سے ہیں ان کے جلسے میں ’’لر اور بر‘‘ کے پشتون ایک دکھائی دیتے ہیںیہ ان کی طاقت بھی ہے اور یہی ان پر تنقید کا سبب بھی ،ان کے والد کانگریسی سوچ کے متحرک سیاسی کارکن تھے، بھارت نے ان سے جو تعلقات استوار کئے محمود خان اچکزئی نے انہیں ٹوٹنے نہ دیا،وہ اسلام آباد میں بھارت کے یوم جمہوریہ پر ہونے والی تقریب میں شرکت کے لئے بھی جا پہنچتے ہیں، انکی فکر اور سوچ مولانا کے نظریئے سے بہت دور ہے، دونوں سیاسی مخالف ہیں لیکن حکومت نے انہیں ’’ایک ‘‘ کردیا ہے انکی یہ قربتیں حکومتی مورچوں میں بیٹھے جوشیلے مقرروں کا خاص ہدف ہو سکتی ہیں۔ بہرحال جو بھی ہوکوئٹہ کا جلسہ ایک بھرپور حاضری کا جلسہ ہوتے ہوئے دیکھا جارہا ہے لیکن سب سے خطرناک بات موجودہ اسٹیبلشمنٹ مخالف فضا ہے جس میں جانبین اپنا کنٹرول کھو رہے ہیں ،شیخ رشید احمد کی سیاسی عسکری قیادت کی ملاقاتوں کا کٹا کھول کر اپوزیشن کی اے پی سی کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش بڑی مہنگی پڑ رہی ہے ، فرمودات شیخ کے بعد عبدالغفور حیدری کے جارحانہ بیان، نوازشریف کے لندن سے غیرمحتاط مواصلاتی تقاریر اور مولانا فضل الرحمٰن کے کشمیر میں حالیہ ’’خطرناک ‘‘ خطابات نے حکومتی مورچے خاموش کرا دیئے ہیں لیکن یہ چپ خود دھماکوں کی پیشن گوئی کر رہی ہے کسی بھی وقت سیز فائرر ختم ہو سکتا ہے۔ گذشتہ تیس برسوں میں اداروںپر اتنا کھل کر شاید ہی بات ہوئی ہو۔اسی کشیدہ فضا میں عمران ان کے ’’بیربلوں ‘‘ نے کوئی درفتنی چھوڑی تو کوئٹہ کے جلسے کا ہر مقرر ’’محمود خان اچکزئی ‘‘ کے لب و لہجے میں بات کرتا ملے گا، سرحد پار بیٹھے سیاسی پنڈت شدت سے گیارہ اکتوبر کے منتظر ہیں، کابل اور دہلی کا میڈیا،اپنے نیوز چینلز اور اخبارات کے لئے سرخیاں سوچے بیٹھا ہے ،وقت احتیاط کا متقاضی ہے، اکھاڑ پچھاڑ لعن طعن سیاسی بوفے کی سب سے لذیذ ڈشز ہوتی ہیں، بس خیال رہے کہ ہاتھ ذرا ہلکا رکھا جائے زیادہ کھانے سے بدہضمی ہی ہوتی ہے!