ایسے تو گیلا تولیہ ڈال کر مرغی نہیں پکڑی جاتی جیسے نیب نے سابق کپتان اور تاحال داماد کو بالآخر گھنٹوں جھکائیاں دینے کے بعد پکڑ لیا۔ گرفتاری تو کیپٹن صفدر نے دینی ہی تھی۔وہ اسی لئے کارکنوں کے ہمراہ نکلے تھے لیکن جب نیب حکام کے ساتھ یہ طے ہوچکا تھا کہ انہیں کب اور کہاں گرفتاری دینی ہے تو میڈیا پہ گھنٹوں اس ڈرامے کی کیا ضرورت تھی؟انہیں پورا موقع دیا گیا کہ وہ کارکنوں کو جمع کریں اور عوامی حمایت کا تاثر دینے کی کوشش کریں حالانکہ دفعہ ایک سو چوالیس بھی نافذ تھی۔اس کی خلاف ورزی کرنے والے اور نیب سے سزا یافتہ مجرم کو ہیرو بنانے والے کارکنوں کے خلاف مقدمہ بھی بنتا تھا جو بنا لیا گیا۔ گویا پوری کوشش کرکے ایک سزا یافتہ مجرم کو ہیرو بنانے میں پورا پورا ساتھ دیا گیا۔یہ تاثر بھی دیا گیا کہ عوام سزایافتہ مجرموں کے ساتھ ہیں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے اس تاثر کو تقویت دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ قانونی اور سیدھا طریقہ تو یہ تھا کہ انہیں دفعہ ایک سو چوالیس کی موجودگی میں ریلی نکالنے کی اجازت ہی نہ ہوتی اور جب اور جہاں سے انہیں گرفتار کرنا طے ہوا تھا، خاموشی سے کرلیا جاتا۔لیکن اس میں مزا کس کو آتا۔ چینل گھنٹوں نیب حکام اور کیپٹن صفدر کے درمیان ہاکی میچ کیسے دکھاتے۔سیاسی ماحول جو جمعہ کے دن سے ٹھنڈا پڑا ہے اس میں گرمی کیسے آتی۔ مردہ گھوڑے میں جان ایک ہی صورت میں ڈالی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ صور پھونک دیا جائے۔اب یہ تو کسی کے بس کی بات نہیں بہر حال کوشش اچھی تھی۔ایک خالص عوامی طریقہ بھی تھا کہ آدھی رات کو چھاپہ مار کر کپتان صاحب کو سوتے میں سے اٹھا یا جاتا اور لبادہ شب خوابی میں ہی داخل زنداں کردیا جاتا جہاں نہ چار مشقتی ہوتے،نہ ٹینس کورٹ نہ طویل و عریض لان اور نہ ہی اے سی اور ٹی وی۔ روزن زنداں سے جھانکتے اور فیض کی نظمیں پڑھتے۔ ستون دار پہ سروں کے چراغ رکھنے کی ان کے یہاں نہ روایت ہے نہ ضرورت۔ان کا ماضی اس کا گواہ ہے۔یہاں میرا دل تو چاہتا ہے کہ عوام کے ساتھ پولیس ، عدالتوں اور جیل حکام کے ناروا سلوک پہ ایک دھواں دھار اور اشک آور تقریر کروں جس میں جھوٹے مقدمات ، پولیس کے تشدد، جعلی پولیس مقابلوں کے روح کو چھید دینے والے واقعات کی منظر کشی کروں۔ چادر اور چار دیواری کا ہماری پولیس کتنا اور کیسے احترام کرتی ہے یہ بھی لکھوں۔ کس طرح ملزم کی عدم دستیابی کی صورت میں اس کے اہل خانہ کو حوالات میں بند کردیا جاتا ہے کہ وہ تڑپ کر گرفتاری دے دے، یہ بھی بیان کروں۔ ایک عام شہری کی عزت کی کس طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ، اس کا مرثیہ لکھوں ۔ آخر میں مطالبہ کروں کہ جب عوام کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے تو عوامی نمائندوں کے ساتھ یہ خصوصی رعایت کیوں؟جب وہ عوام سے عزت وصول کرتے ہیں تو عوام ان کی عزت میں شریک کیوں نہیں۔اور عوام کی ذلت میں وہ کیوں حصہ دار نہیں۔جب روٹ لگتا ہے اور پروٹوکول میں یہی عوام ان کی سیکوریٹی کی خاطر ذلیل ہوتی ہے تو کرپشن کے کیس میں گرفتار ہونے والا عوامی نمائندہ جیل میں عوامی ذلت کیوں نہیں جھیلتا۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو کالم کا پیٹ بھر سکتے ہیں لیکن ان کا فائدہ کیا ہے۔ کچھ بزرگوں کو بوریت کا شکوہ ہے اور یہ بھی کہ ایک خاندان کو سیاسی منظر نامے سے باہر کرنے کے لئے یہ میلہ سجایا گیا ہے۔ کیا وہ عوا م کو یہ سبق دینا چاہتے ہیں کہ کسی طرح جان مار کر وہ ایک بار انتخابات میں حصہ لیں، اپنی جائداد اور زمین بیچ کر بھی ہر جائز ناجائز ہتھکنڈے سے ایک بار عوامی نمائندے بن جائیں پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ ان کا ہر جرم ہر غبن سیاسی ہوجائے گا۔ ان پہ بدعنوانی پہ اگر کبھی کوئی مقدمہ چلا تو وہ سیاسی ہوگا وہ عوام کے جلوس میں گرفتاری دینے آئیں گے اور جیل میں انہیں اے کلاس ملے گی۔ ٹھنڈے کمرے، ٹھنڈا پانی ، چار مشقتی، بہت سے کمرے، ٹی وی اخبارات اور وہ سب کچھ جو ایک عام آدمی کو اپنے گھر میں بھی میسر نہیں۔ اس سے پہلے جب وہ پیشیاں بھگتنے آئیں گے تو ان کی شان ہی کچھ اور ہوگی۔ ان کے ساتھ سرکاری پروٹوکول ہوگا،ذاتی سیکیوریٹی ہوگی اور میڈیا کا تام جھام۔ ایسے میں ہر جرم کتنا خوابناک ہوگا اس کا تصور بھی ایک عام آدمی نہیں کرسکتا ۔ بس ایک بار ہمت کرنے کی دیر ہے۔ تو اے عوام الناس ، ایک بار ہمت کرکے خود کو اپ گریڈ کرلو اور عوامی نمائندے بن جاو پھر دیکھو تمہارے ہر جرم، ہر بدعنوانی کو کیسے سیاسی پناہ ملتی ہے اور کیسے بیانیے تمہارے لیے تشکیل اور تبلیغ کئے جاتے ہیں۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے سکہ بند جرائم کے لیے جو خالص بدعنوانی سے متعلق ہیں،لوگوں کے پاس کیسی کیسی توجیحات موجود ہیں اور وہ کیسے شرح صدر کے ساتھ اس کا دفاع کرتے ہیں ،اس کا جواب وہی دیں گے۔ معلوم ہوتا ہے انہوں نے نہ نیب کے ریفرینسز پڑھے ہیں نہ ہی پانامہ لیکس کی تفصیلات میں جانے کی زحمت کی ہے۔ انہوں نے اپنے ممدوح کو ایک مقبول بیانیہ ڈیزائن کرکے دے دیا جس کی بنیاد محض اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا ہے۔ جبکہ وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں کہ نواز شریف کتنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ اس طرح سول بالادستی کا مباحثہ کھول کر وہ ان کے اصل جرم پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جو بالکل واضح طور پہ بدعنوانی ہے۔ نیب کے حالیہ ایون فیلڈ ریفرینس کا فیصلہ ہو یا ایک درجن آف شور کمپنیوں کا کیس ہو ،کیا اس بات کی کوئی ایک توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے کہ اس خاندان کی دولت میں بے پناہ اضافہ آخر کیسے ہوا؟اگر کسی نے جے آئی ٹی کی تفصیلی رپورٹ پڑھنے کی زحمت کی ہو تو وہاں گراف کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح زمین پہ لوٹتے اثاثے اچانک کپڑے جھاڑ کر محو پرواز ہوگئے۔ کیا عوام کو کسی بھی عدالت کے ذریعے اپنے عوامی نمائندگان سے یہ دریافت کرنے کا کوئی حق نہیں کہ ایسا کیونکر ہوا؟کیا پارلیمنٹ میں ایک جھول دار تقریر کسی بھی شعور رکھنے والے ووٹر کو مطمئن کرسکتی تھی یا انہیں اپنے دیے گئے شعور پہ پورا بھروسہ تھا کہ وہ کبھی ان کی چالبازیوں کی تہہ میں نہیں پہنچ سکتا؟ابھی ایون فیلڈ فلیٹس کا فیصلہ آیا ہے۔ ہل میٹلز ریفرینس باقی ہے۔ عزیزیہ اسٹیل مل ریفرینس باقی ہے اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کمپنی سمیت درجن بھر آف شور کمپنیوں کے کیس باقی ہیں۔ان میں سے ہل میٹل کیس تو انتہائی حساس نوعیت کا کیس ہے جس کے ڈانڈے بھارت میں موجود سرمایہ کاروں سے ملتے ہیں۔ عزیزیہ اسٹیل مل بھارتی سرمایہ کار آر یو سیٹھی کی مدد سے لگائی گئی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کاروبار تو کسی کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن پھر اس آپ کو ماننا پڑے گا کہ جن سرمایہ کاروں کے کاروباری مفادات بھارت میں ہوں وہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں اور ہوا بھی یہی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا فلیگ اے اسے آئی بتاتا ہے کہ35 ملین سعودی ریال کی مشینری بھارت سے اسٹیل مل لگانے کے لئے منگوائی گئی ہے۔ یہ الزامات نہیں ہیں بلکہ ان کے ٹرانزیکشن ثبوت موجود ہیں۔یہ ٹرانزیکشنز الراجی بینک کے ذریعے ہوئیں اوریاد رہے الراجی بینک ریفرینس تو نیب نے بنایا ہی نہیں۔ یہ وہ کیس تھا جو بنایا جانا چاہئے تھا۔ حبیب بینک نیویارک برانچ اسی بینک کے ساتھ ان ہی بے نامی ٹرانزیکشن کے الزامات پہ نہ صرف بند ہوگئی بلکہ اس پہ 630 ملین ڈالر کا جرمانہ ہوا۔ الراجی بینک پہ القاعدہ کو فنڈنگ کے بھی الزامات تھے۔اور اسی بینک سے رقومات پہلے حبیب بینک پھر جاتی امرا اسٹینڈرڈ چارٹرڈ میں منتقل ہوئیں جو نواز شریف کا اکاونٹ تھا یہ سب رقومات ہل میٹلز کے لئے منتقل ہوئیں اور نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے صرف ایک سال بعد ہوئیں۔ان کی تفصیلات انٹرنیٹ پہ دیکھی جاسکتی ہیں ۔ یہی منی لانڈرنگ تھی جو حبیب بینک نیویارک کی بندش اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بنی اور بعد میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں شامل کرنے کا باعث بھی بنی۔الراجی بینک ریفرینس یا حبیب بینک ریفرینس اگر نیب نے دائر کیاہے تو میرے علم میں نہیں اور اگر نہیں دائر کیا گیا تو کیوں نہیں کیا گیا یہ سوال اپنی جگہ ہے۔ نواز شریف سے ہمدردی یا محبت رکھنے والے دانشور اور برزجمہر شاید بھول رہے ہیں کہ دنیا بہت بدل چکی ہے اور آج کے ووٹر کے ہاتھ میں سما چکی ہے۔اب بدعنوانی پہ بیانئے کا پردہ ڈالنا ناممکن ہوچکا ہے۔ آپ شوق سے بیانئے تشکیل دیں، ہم نظریاتی طور پہ آپ کا ساتھ دینے کو بھی تیار ہیں۔ پہلے لیکن قوم کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی کا حساب ہوگا۔سول بالادستی کی بات بعد میں ہوگی ۔یہی عوام کا فیصلہ ہے۔