سپریم کورٹ نے نیب کو حکم دیا ہے کہ پی ایس او کے ایم ڈی سمیت 15 لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ پانے والے سرکاری کمپنیوں کے سربراہوں کی تقرری کی تحقیقات کرے۔ اس حکم کے ساتھ عدالت عظمیٰ نے پاکستان سٹیٹ آئل کے تین سالہ حسابات کا آڈٹ کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ ایم ڈی پاکستان سٹیٹ آئل ماہانہ 37 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس تنخواہ پر استفسار کیا ہے اور پوچھا کہ آئل سیکٹر کا تجربہ نہ ہونے اور مقامی ڈگری ہونے کے باوجود آپ کی تقرری کس نے کی۔ ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ ان کی تقرری کی منظوری سابق وزیراعظم نوازشریف نے دی تھی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ او جی ڈی سی کے سربراہ کی تنخواہ بھی 44 لاکھ روپے ہے۔ پاکستان سٹیٹ آئل اور او جی ڈی سی میں تنخواہوں کا معاملہ ہی توجہ طلب نہیں، ان اداروں میں کئی طرح کے گھپلے اور بدعنوانی بھی سامنے آ رہی ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی خریداری میں 64 ارب روپے کے گھپلوں کا انکشاف ہوا ہے۔ پی ایس او کے سابق جنرل منیجر کو دیگر ساتھیوں سمیت حراست میں لے کر ان گھپلوں کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں قومی وسائل کی لوٹ مار معمول بن چکی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو عوام کے حقوق کی حفاظت کا وعدہ کرتی ہیں اقتدار ملتے ہی وہ قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ آئل اینڈ گیس کے شعبے میں بدانتظامی اور بدعنوانی کی درجنوں داستانیں موجود ہیں۔ مختلف قسم کے لائسنسوں کے اجرا، پرمٹ، تیل کی خریداری، عملے کی تعیناتی اور کمیشنوں کے معاملات شفاف دکھائی نہیں دیتے۔ یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے اپنے ایک ایسے دوست کو او جی ڈی سی کا سربراہ لگا دیا تھا جس کی تعلیم میٹرک بتائی جاتی تھی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جب وزیر گیس و پٹرولیم تھے تو انہوں نے قطر کے ساتھ ایل این جی کی خریداری کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی تفصیلات سابق حکومت نے کبھی پارلیمنٹ میں پیش نہ کیں۔ بعض سابق ارکان پارلیمنٹ کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس معاہدے کے ذریعے بہت بڑی رقم کمیشن کی شکل میں وصول کی ہے۔ سپریم کورٹ تیل کی قیمتوں کے متعلق ایک الگ درخواست پر سماعت کررہی ہے۔ تیل کی بین الاقوامی قیمتیں اس وقت 72 ڈالر فی بیرل کے قریب ہیں۔ اس حساب سے ضروری اخراجات شامل کر کے پاکستان میں تیل کی فی لٹر تیل کی قیمت 95 روپے کے قریب پہنچا دی ہے۔ تیل پر فی لٹر جس قدر ٹیکس عائد کئے گئے ہیں اس کی مثال شاید پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ 2015ء میں نیب نے بدعنوانی کے 150 میگا سکینڈلز کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی۔ اس وقت نیب نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا تھا کہ ان 150 مقدمات میں سے 71 انکوائری، 41 تحقیقات کے مرحلے میں ہیں جبکہ 38 کی تحقیقات مکمل کرکے ریفرنس احتساب عدالتوں کو بھیج دیئے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کے بھائی اور اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، اسحاق ڈار، سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف، چوہدری شجاعت حسین اور بہت سے دیگر سیاستدانوں اور افسروں کے خلاف مالی بدعنوانی و اختیارات کے ناجائز استعمال کے مقدمات زیر تفتیش تھے۔ ان مقدمات میں شریف برادران کے خلاف رائے ونڈ سے جاتی عمرہ اپنے گھر تک 126 ملین روپے سے سڑک تعمیر کرانے کا مقدمہ سن 2000 سے پڑا ہوا تھا۔ اسی طرح میاں نوازشریف پر 1999ء میں ایف آئی اے میں غیرقانونی بھرتیوں کا مقدمہ بھی ابتدائی مراحل میں اٹکا ہوا تھا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ میں نیب کی طرف سے یہ رپورٹ پیش کئے جانے کے باوجود ان میگا سکینڈلز میں سے اکثر پر پیشرفت نہ ہو سکی۔ جون 2018ء میں ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ قومی احتساب بیورو نے ایل این جی ٹھیکے میں کرپشن کے الزام میں نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف تحقیقات کی منظوری دے دی۔ دونوں سابق وزرائے اعظم پر الزام ہے کہ انہوں نے من پسند کمپنی کو 15 سال کا ٹھیکہ خلاف ضابطہ دیا جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ یہ المیہ ہے کہ جب کوئی برسراقتدار ہوتا ہے تو اس کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف متعلقہ ادارے قانون کی بالادستی قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پولیس، ایف آئی اے اور نیب کی موجودگی میں برسراقتدار افراد کا بے خوف ہو کر بدعنوانی کی کارروائیاں کرنا ریاستی ڈھانچے میں موجود انتظامی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ برسہا برس تک کرپشن کی شکایات پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ انتظار کیا جاتا ہے کہ حکومت تبدیل ہو اور برسراقتدار لوگ عوامی مقبولیت سے محروم ہوں تو ان کے خلاف کارروائی آگے بڑھائی جائے۔ اس انتظار میں بسااوقات کئی ملزم دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور کچھ غیرقانونی طریقوں سے اکٹھی کی گئی دولت سمیٹ کر بیرون ملک روپوش ہو جاتے ہیں۔ بروقت قانونی عمل کا شروع نہ ہونا بدعنوانی عناصر کے لئے حوصلہ افزائی کا سبب رہا ہے۔ حکمران شخصیات کی جانب سے دوست نوازی اور اقربا پروری نے کرپشن کے نئے راستے کھولے ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ گریڈ 21 کا افسر ماہانہ دو لاکھ تنخواہ وصول کرتا ہے لیکن اس کے ماتحت اداروں میں ایسے لوگوں کو کنٹریکٹ پر ملازم رکھ لیا جاتا ہے جو چالیس لاکھ اور پینتالیس لاکھ تک ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ اس امتیازی سلوک سے افسر شاہی میں بد دلی پھیلتی ہے اور سرکاری افسر مالی مراعات کے لیے خوشامد کو ذریعہ بنانے لگتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فعال کردار نے حکومتوں کی بداعمالیاں ظاہر کردی ہیں۔ ایک ایسا شخص جس کے پاس متعلقہ شعبے کا تجربہ تک نہیں، پی ایس او کے ایم ڈی کے طور پر اس کی تعیناتی کس کے کہنے پر اور کیوں ہوئی، اس بات کا پتہ چلانا چاہیے مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کی تعیناتیوں کا مستقبل میں راستہ روکنے کا انتظام ہونا بھی ضروری ہے۔ جب تک قصور وار افراد کو ان کے غیرقانونی اقدامات اور فیصلوں پر سزا نہیں ملتی بہتری کی امید عبث ہے۔ بھلا ایک ایسا شخص جو صرف خریدے ہوئے تیل کو ریفائنری میں بھیجنے کی منظوری دیتا ہے، اسے کس طرح 37 لاکھ کی تنخواہ دی جا سکتی ہے۔ ان حالات میں نیب کے سربراہ جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ آئندہ حکومت بننے سے پہلے نیب کے پاس جس قدر اہم مقدمات ہیں ان کے ریفرنس دائر کردیئے جانے سے تفتیش کو سیاسی دبائو سے آزاد رکھا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس ایسے مقدمات کی جلد سماعت کو یقینی بنا سکیں تو بدعنوانی کو بروقت سزا دینا ناممکن نہیں رہے گا۔