بیدل حیدری کے ایک ہونہار شاگرد نے ان کا ایک شعر پوسٹ پر لگایا ہے: بیدل لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا اسی غزل کا ایک اور شعر بھی مجھے ہانٹ کرتا ہے: گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا بیدل حیدری کے تذکرے سے یادوں کا ہجوم امڈ آیا۔ جب یونیورسٹی سے نکلے تو کوشش ہوتی کہ ہر مشاعرے میں شرکت کریں۔ چنانچہ ایک کالج کے مشاعرے میں پہنچے جہاں بیدل حیدری صدارت فرما رہے تھے ان کے شاگرد خاص اطہر ناسک مرحوم بھی موجود تھے۔ ہم بھی بڑی ہوائوں میں تھے۔ میں نے چند اشعار سنائے: بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا اگرچہ سعد رستے میں بڑے دلکش جزیرے تھے مجھے ہر حال میں لیکن سمندر پار جانا تھا میں غزل سنا چکا تو بیدل صاحب کہنے لگے، برخوردار! باقی کے اشعار بھی ہم سنیں گے۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ آخر میں اپنے صدارتی خطے میں کہنے لگے۔ میں لاہور سے سعداللہ شاہ کی غزل لے کر جارہا ہوں۔ اس معاملے کو مدت بیت گئی۔ چند مشاعروں میں ملاقات ہوئی مگر اصل ملاقات احمد ندیم قاسمی کے دفتر میں ہوئی۔ میں نے خواہش ظاہر کی وہ میرے گھر پر رات کا کھانا کھائیں۔ چنانچہ احمد ندیم قاسمی منصورہ احمد کے ساتھ گھر پر آئے۔ ڈاکٹر سلیم اختر، شہزاد احمد، قتیل اطہر ناسک اور کئی دوسرے دوست میرے ہاں آئے۔ ہاں رخشندہ نوید بھی تھی۔ تب ان کا شعری مجموعہ ’’پشت پر گھر‘‘ آیا تھا جو انہوں نے نہایت مہربانی سے عطا کیا۔ شعراء کی کہکشاں میں انہوں نے اپنا کلام سنایا: کیا بھروسہ ہے سمندر کا خدا خیر کرے سیپیاں چننے گئے ہیں میرے سارے بچے ان ہوائوں سے تو بارود کی بو آتی ہے ان فضائوں میں تو مر جائیں گے سارے بچے بیدل حیدری کا تعلق کبیر والا سے تھا۔ وہ بہت توانا اور زودگو استاد تھے بلکہ کبیر والا کے اردگرد جتنے بھی شہر ہیں وہ ان کی دسترس میں تھے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد بلامبالغہ سینکڑوں میں ہے۔ ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ مصحفی کی طرح فراخدل بھی تھے کہ اپنی مرضی کے اشعار رکھ کر بانٹ دیا کرتے تھے۔ جیسے کراچی کے راغب مراد آبادی مشہور تھے کہ وہ لڑکیوں کو کورے کاغذ پر اصلاح دیا کرتے تھے۔ بیدل صاحب یہ تکلف ہی نہیں کرتے تھے۔ ایک شاگرد کے بارے میں تو کسی نے لکھا کہ اس کے شعری مجموعے میں 71غزلیں ہیں، ،بیدل حیدری کی ہیں۔ واللہ اعلم۔ ان کے ایک ہونہار شاگرد شیل سروش نے بہرحال ایک بڑا یہ کام کیا اپنے استاد کے کلیات شائع کردیئے اور اس سے بھی پہلے عروض کے حوالے سے اپنے استاد کے نوٹس شائع کئے۔، ان کے شاگردوں میں ڈاکٹر اختر اور اطہر ناسک نے نام کمایا۔ بیدل حیدری نے بہت سوں کو متاثر کیا۔ کبیر والا میں رہ کر ادبی دنیا میں مقام بنانا کچھ آسان نہ تھا مگر میں نے دیکھا کہ بیدل صاحب کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب ذرا دیکھیے کہ ان کی ایک زمین کو ہمارے شاعروں نے کس قدر رگیدا کہ درجنوں غزلیں کہہ دیں مگر استاد استاد ہی ہے۔ ذرا ان کے اشعار دیکھیں: کبھی لہریں ترا چہرا جو بنانے لگ جائیں میری آنکھیں مجھے دریا میں بہانے لگ جائیں وہ ہمیں بھولنا چاہیں تو بھلا دیں پل میں ہم انہیں بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بیدل حیدری حیدر دہلوی کے شاگرد تھے اور ’’حیدری‘‘ وہ اسی مناسبت سے لکھتے تھے۔ بعدازاں اختر شمار نے حیدر دہلوی پر ہی ڈاکٹریٹ کا تھیسز کیا۔ پہلے پہل ان کا تعلق وزیر آغا سے رہا۔ پھر جب وہ بیمار پڑے تو احمد ندیم قاسمی نے بڑی مہربانی سے انہیں نہ صرف خط لکھا بلکہ اعانت بھی۔ اس کے بعد وہ احمد ندیم قاسمی کی انسان دوستی کے اسیر ہو گئے۔ قاسمی صاحب نے اپنی سالگرہ پر انہیں بلایا اور باقاعدہ سٹیج پر اپنے ساتھ بٹھایا۔ یہ کتنے اچھے لوگ تھے۔ محبتیں پھیلانے والے۔ ویسے بیدل صاحب موجی آدمی تھے۔ ایک بہت ہی قریبی دوست ملنے آیا تو اسے زبردستی مشاعرے کے لیے کبیر والا سے بہاولپور لے گئے۔ وہ چیختا ہی رہ گیا کہ وہ تو گھر سے دہی لینے آیا ہے۔ وہی کہ جیسے حسن رضا نے کہا ہے ’’آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے۔‘‘ بیدل صاحب کے ایک اور اشعار پڑھ لیجئے: عہد بارود ہے کدھر جائے اے خدا آدمی نہ مر جائے اس قدر بھی نہ سر اٹھا کے چلو جانے پگڑی کہاں اتر جائے میرے گھر میں تو نہ گملے ہیں نہ انگور کی بیل اے خزاں تجھ کو کسی اور کے گھر جانا تھا بیدل حیدری نے ایک نسل کو سیراب کیا اور ان کا فیض قرب جوار میں پھیلتا ہی گیا۔ آخر میں ان کی ایک نعتیہ نظم کے ساتھ اجازت اور اس دعا کے ساتھ کہ یہ نعت ان کی بخشش کا وسیلہ بنے: روشنی اس کی مسافرت کا زمانہ بھی روشی اور ساتھ ہی نقوش کف پا بھی روشنی اس اشک نو بہار کی سانسیں بھی خوشبوئیں اس روشنی بدن کا پسینہ بھی روشنی اس پیکر جمال کی پرچھائیں بھی جمال اس روشنی کے پیڑ کا سایہ بھی روشنی تاریک حرف کوئی نہیں اس کے نام میں یہ نام وہ ہے جس کا ستارا بھی روشنی بیدل یہ ایک نام جس اخبار میں چھپے اخبار کا وہ اتنا تراشا بھی روشنی