امریکہ نے بغداد میں ایران کی دوسری طاقتور ترین شخصیت جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرکے مشرق وسطی میں اپنی تھانیداری کو تسلیم کرانے کی جو سعی کی ہے وہ تیسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھنے کا الارم ہے، مشرق وسطی میں لگی ہوئی آگ کو بھڑکنے سے اب روکنا ممکن نہیں رہا، بے شک اس وقت ایران معاشی زبوں حالی کا شکار ہے لیکن آیت اللہ خامنہ ای کا یہ بیان کہ،،، بدلہ لیا جائے گا،، محض دھمکی کے زمرے میں نہیں لیا جانا چاہئیے، امریکہ نے خود کو ہی نہیں پورے عالم کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے، اب خلیجی جنگ کا پارٹ ٹو شروع ہو چکا ہے، امریکی اب تک اپنی اس ہزیمت کو نہیں بھول سکے جب لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ان کی ایک بڑی فوجی چھاونی کو خود کش بمباروں نے ٹرک بمباروں کے ذریعے اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں300سے زیادہ امریکی فوجی اور افسران مارے گئے تھے،جنرل قاسم سلیمانی کو یہ جاننے کے باوجود قتل کیا گیا کہ ایرانی ایک منتقم مزاج قوم ہیں، امریکہ جانتا ہے کہ اگر اس نے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرکے بدلہ لیا ہے تو وہ یہ بھی بخوبی سمجھتا ہے کہ اب ایران بھی خاموش نہیں رہے گا، کیونکہ جنگ کا بنیادی اصول بھی یہی ہے۔آج عراق لبنان بن چکا ہے، بغداد پاؤڈر کیک بن چکا ہے، بارود میں لپٹے بغدادکو ہم ایک ایسے خطرناک بم سے تشبیہ دے سکتے ہیں جو پوری دنیا کے آدھے انسان آن کی آن میں ختم کر سکتا ہے،وہ تمام مسلمان ممالک جنہیں امریکہ نیست و نابود کر چکا ہے ،ان ممالک میں اب امریکی فوجوں کی موجودگی شاید ممکن نہ رہ سکے، اس امر میں بھی کوئی شائبہ نہیں کہ مشرق وسطی میں ایرانی مداخلت امریکہ کے عرب حواریوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، اپنے ان حلیفوں کی واشنگٹن کو مکمل حمایت حاصل ہے، کل سے شروع ہونے والا نیا ہفتہ پوری دنیا کے لئے بہت اہم بن چکا ہے،صرف مشرق وسطی ہی نہیں پوری دنیا کے لئے فیصلہ کن ہفتہ، یہ نیا ہفتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قسمت کا تعین بھی کر سکتا ہے، سعودی عرب پر ایران کے حملے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا، جنگ کتنی بھی محدود ہو یا لا محدود ، پاکستان کو دونوں صورتوں میں کئی امتحانات سے گزرنا پڑ سکتا ہے امریکہ جنرل قاسم سلیمانی کی جان لے کر مطمئن نہیں ہوا، چند گھنٹوں بعد بغداد میں ہی ایک اور حملہ کرکے شیعہ بریگیڈ کے اہم راہنما کو بھی جاں بحق کر دیا گیا، مطلب صاف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کی جانب سے کسی بھی قسم کے جواب کی کوئی پروا نہیں،امریکہ اور روس نے بغداد میں امریکی کارروائیوں پر تنقید تو کی ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر ایران نے واقعی کوئی بڑا جوابی حملہ کر دیا تو چین اور روس کہاں کھڑے ہوں گے؟ کیونکہ وہ وقت تماشہ دیکھنے کا وقت نہیں ہوگا، ایران تو پتہ نہیں کس حکمت عملی سے کیسی جوابی کارروائی کرے گا، امریکہ کی پیش بندیاں سامنے آ گئی ہیں۔اس کے باوجود کہ واشنگٹن نے موجودہ حالات کے پیش نظر پاکستان کے لئے فوجی تربیتی پروگرام بحال کر دیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کسی ،، مہم جوئی،، کا حصہ نہیں بنے گی، ہاں، یہ درست ہے کہ ایران کے خلاف جاری مہم جوئی میں واشنگٹن کو ہمارے اڈوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے مگر آج ہماری فوجی کمان کسی ضیاء الحق کے ہاتھوں میں ہے اور نہ ہی عمران خان کسی ڈکٹیٹر کا نام ہے، پاکستان کے لئے مشکل وقت ضرور ہے لیکن موجودہ فوجی قیادت ہرمشکل سے نبرد آزما ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے، اب ہم کسی سامراج کا آلہ کار بننے کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے ٭٭٭٭٭ پچھلے کالم میں ہم نے موجودہ دور کی صحافت اور صحافیوں کے بارے میں چند حقائق آپ کے سامنے رکھے تھے، شعبہ صحافت کی موجودہ زبوں حالی کا ایک وسیع تر تلخ ماضی ہے، جس پر احفاظ الرحمان کی،،، سب سے بڑی جنگ،، سمیت بہت سی کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں، اگر وزیر اعظم جناب عمران خان واقعی صحافت کی سمت درست کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان میں صحافت کی تاریخ پر لکھی جانے والی کم از کم دو کتابیں نصاب کا حصہ بننی چاہئیں تاکہ صحافت میں داخل ہونے والے بچے سچ اور جھوٹ کا ادراک حاصل کرکے اپنے فرائض انجام دے سکیں اور،،، دکاندار صحافیوں،، کے چنگل سے بچ سکیں،، بے شک سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ماضی میں بھی اور آج بھی صحافیوں کے مخصوص ٹولوں کو سیاست دان ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں، سیاستدانوں اور بعض اداروں نے مخالفین کو کچلنے کے لئے ،،، کرائے کے گوریلے،، بھی صحافی اداروں کے اندر پہنچائے،صحافت میں ان کالی بھیڑوں کو ہر دور میں حکمرانوں اور حکمران طبقات نے استعمال کیا، صحافت میں باقاعدہ کرپشن کا آغاز ایوب خان کے دور میں شروع ہوا، اس دور کے آزاد اخبارات اور جرائد کو قومی تحویل میں لے لیا گیا اور انہیں کنٹرول کرنے کے لئے سرکار کی سرپرستی میں نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کیا گیا، اس اقدام کا مقصد پریس پر تسلط حاصل کرنا، عوام سے حقائق چھپانا، حکومت کی جعلی کارکردگیوں کو اجاگر کرنا،محالف سیاستدانوں کی کردار کشی کرنا تھا، نیشنل پریس ٹرسٹ کا قیام پاکستان میں آزادی صحافت پر پہلا سب سے بڑا حملہ تھا، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آزادی صحافت کے دشمن موجودہ حکومت میں بھی موجود ہیں اور وزیر اعظم کو ایوب خانی اقدامات دہرانے کے لئے اکساتے رہتے ہیں، ایوب خان کے زمانے میں ہی پریس ایڈوائس اور در پردہ سنسر شپ متعارف کرایا گیا تھا جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف انتخابی میدان میں اتری تھیں تو مقبوضہ پریس کی مدد سے ہی قائد اعظم کی قابل احترام ہمشیرہ کی کردار کشی کی گئی تھی، یہ مقبوضہ پریس ہی کا کمال تھا کہ جب فال آف ڈھاکہ ہو رہا تھا تو مغربی پاکستان کے اخبارات میں،،، سب اچھا ہے،، لکھا جا رہا تھا، مغربی پاکستان کے عوام کو پاکستان کے دو لخت ہوجانے کی خبر سب سے پہلے بی بی سی نے سنائی تھی، ہم ابھی محترمہ فاطمہ جناح کا ذکر کر رہے تھے، یہ سو فیصد شک ہے کہ وہ ایوب خان کے خلاف الیکشن جیت چکی تھیں لیکن مقبوضہ پریس نے ان کی فتح کو شکست فاش میں بدل دیا تھا۔ جبر و استبداد اور ابتلاء کے اس صحافتی دور میں بالآخر محب وطن اور عوام دوست صحافیوں کا ایک گروپ ہی میدان میں اترا تھا، یہ صحافی قوم پرست بھی تھے اور ترقی پسند بھی، ایوب خان کی آمریت کو سب سے پہلے بھٹو نے نہیں صحافیوں کی ٹریڈ یونین قیادت نے ہی للکارا تھا، جب صحافیوں نے ایوب خانی آمریت کے خلاف عملی جدوجہد شروع کردی تو اس کے خلاف گماشتہ صحافیوں کو استعمال کیا گیا، پاکٹ یونینز،، بنانے کا سلسلہ بھی اسی دور میں شروع ہوا جو ضیاء الحق دور میں اپنے عروج تک پہنچا، صحافیوں کی اس پہلی بڑی جنگ کو ناکام بنانے کے لئے ریاستی اداروں کو استعمال کیا گیا، کالے قوانین استعمال کئے گئے- گماشتہ صحافیوں کے مالدار بن جانے کا سلسلہ ایوب خان دور میں شروع ہوا اور کرائے کے اس قسم کے گوریلا صحافی آج ایک بڑے قبیلے کی شکل اختیار کر چکے ہیں، اس قبیلے کو سب سے زیادہ مالی فوائد نواز شریف کے ادوار میں حاصل ہوئے، صحافتی کرپشن نے آج باقاعدہ پروفیشن کی شکل اختیار کر لی ہے، پیسہ پھینکو تماشہ دیکھو۔