ابھی سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکی غلبے کا خاتمہ قریب ہے۔ ہاں اگر روس اور چین ایک نئی عالمی کرنسی پر متفق ہو گئے؟ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں زمیں زیر وزبر ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی طوفانوں کی زد میں رہے گی۔ کورونا کا مسئلہ عالمی معیشت کو جس نے ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسی ویکسین جب تک ایجاد نہیں ہو جاتی دنیا بھر کے تمام لوگوں کو جو مہیا کی جا سکے‘ بحالی کا عمل شروع نہ ہو سکے گا۔ کون جانتا ہے کہ ابھی اس کے لئے کتنا عرصہ درکار ہو گا۔امریکہ میں وبائی امراض کے ممتاز ماہر ڈاکٹر فائوچی اور ڈبلیو ایچ او کے ذرائع تو یہ کہتے ہیں:ممکن ہے کہ ایک کے بعد کورونا کی دوسری لہر اٹھے اور ایک زمانے تک بنی نوع انسان کو اس کے ساتھ جینا پڑے۔ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جنگلی جانوروں کے ساتھ‘ آدمیت کے تأمُلّ نے خرابی پیدا کی‘اور وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی گئی ۔یہ ایک سنگین صورت حال ہے کہ شاید حد سے زیادہ توجہ سے آبادیوں کی آبادیاں جب ممنوع جانوروں سے دسترخوان سجانے لگیں۔ پاکیزگی اور صفائی کے تصورات کو یکسر نظر انداز کر کے جب چمگادڑوں تک کا شور بہ پیاجانے لگا تو اس کے سوا کیا ہوتا؟ آدمی سے قدرت کا مطالبہ شاید یہ ہے کہ وہ صفائی کے کم از کم بنیادی اصولوں کی پاسداری کرے۔ انسان کی بجائے حیوان نہ بن جائے۔اتنا ہی بڑا خطرہ عالمی طاقتوں کی آویزش ہے۔ وائرس کے پھیلائو نے ساری دنیا میں یلغار کی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دنیا بھر کی حکومتیں اور سائنس دان مشترکہ طور پر بروئے کار آتے۔ مگر ہوا کیا؟ امریکیوں نے چین کو ذمہ دار قرار دیا اور چین نے امریکہ کو۔ مصیبت میں گھبراہٹ اور قربانی کے بکروں کی تلاش ایک اور بڑی مصیبت بن کر ابھرتی ہے۔ اب غلبے کی خواہش ایک خوفناک انسانی جبلت ہے۔ طاقتور اقوام ہمیشہ ایک دوسرے سے الجھتی چلی آئی ہیں۔ امریکہ اور چین کی باہمی کشمکش نیا منظر نامہ ہے۔ یورپی یونین، جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت جس طرح ریاست ہائے متحدہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس عظیم متحدہ محاذ کے باوجود پیش قدمی کرنے کے وہ قابل نہیں ۔چین کا قافیہ وہ تنگ نہیں کر سکے ۔امریکہ عراق اور افغانستان میں الجھا اور کچھ بھی اس سے حاصل نہ کر سکا۔ جنوبی سمندروں سے عوامی جمہوریہ چین پر دبائو بڑھانے کی کوشش کی وہ بھی نتیجہ خیز نہ ہو سکی۔ عراق سے امریکہ کو کیا حاصل ہوا؟عرب برباد اور پسپا ہوئے اور ایران کا رسوخ پھیلتا چلا گیا۔ شام ‘ عراق،یمن اور لیبیا ایسے ممالک کی تباہی سعودی عرب اور امارات کے دلدل میں اتر جانے اور مصر میں عسکری بالاتری نے تہران کے راستے ہموار کئے۔ خود اسرائیل کو بھی اس سے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ترکی ایک طاقتور ملک بن کر ابھرا اور مستقبل کے عظیم امکانات پہ اب اس کی نظر ہے۔ 1923ء میں یورپی طاقتوں کے ساتھ مجبوری میں کیا جانے والا معاہدہ تمام ہونے والا ہے۔ جس کے بعد امریکی اور یورپی جہازوں کو ایشیا اور افریقہ کا رخ کرنے کے لئے زائد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ حادثات کے باوجود ترک فوج طاقتور ہے ۔حادثات کے باوجود ترک معیشت اپنے قدموں پر کھڑی رہ سکتی اور نشو و نما پا سکتی ہے۔ایک قوم میں زندہ رہنے کا ولولہ جاگ اٹھے تو معجزات رونما ہونے لگتے ہیں جیسا کہ چین میں ہوا۔ ایک خاص پیمانے پر سنگا پور اور ملائشیا میں ترکی میں یہ عمل زیادہ تیزی سے بروئے کار آ سکتا ہے اور اس کی بہت سی جہات ہوں گی۔ استنبول عالم اسلام کا لیڈر بن کے ابھر رہا ہے۔ احساس محرومی کے مارے عالم اسلام میں قیادت کی تمنا شدید ہے۔ بھارت اور امریکہ باہم مل کر چین کا راستہ روکتے مگر یہ دونوں المناک داخلی بحرانوں کی زد میں ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی میں قدر مشترک یہ ہے کہ اکثریت کے تعصبات جگا کر اقتدار تو انہوں نے حاصل کر لیا مگر اب ہر روز کے طوفان جنم لے رہے ہیں۔ ابھی کل تک بھارت کے لئے کشمیر سب سے بڑا مسئلہ تھا جس کی اکثریت آزادی کے لئے پرعزم ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں آر ایس ایس کے انداز فکر نے مگر اب کئی اور بحران پیدا کر دیے ہیں۔20کروڑ مسلمانوں کو انہوں نے اپنے قومی جسد سے کاٹ کر الگ کر دیا ہے ۔ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ غلامی کی پست زندگی قبول کر لیں یا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ۔سکھ ناراض ہیں اور مدتوں سے ۔ جھاڑ کھنڈ ‘تامل ناڈوسمیت علیحدگی کی دوسری تحریکیں سوا ہیں۔سکھ‘ عیسائی، بدھ اور ایک اعتبار سے دلت بھی سب کی سب اقلیتیں خوف زدہ ہیں۔ گاندھی اور نہرو کا ہندوستان تحلیل ہوا اور اب یہ ایک نیا ملک ہے۔ آر ایس ایس کی زہرناکی انتخابی سیاست تک محدود نہیں، مسلح افواج کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سابق چیف آف آرمی سٹاف بپن راوت کے لئے اسی خاطر ایک نیا عہدہ تراشا گیا۔ سول سروس اور میڈیا ‘کاروباری طبقات حتیٰ کہ فلمی صنعت بھی اس کی زد میں ہے۔ اب امریکہ اور بھارت جمے جڑے معاشرے نہیں۔ پوری طرح انہیں متحد اور متشکل رکھنا سہل نہ ہو گا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت کے اندر سے ایک یا ایک سے زیادہ نئے پاکستان ابھر سکتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ میں فساد پر شاید قابو پا لیا جائے۔ نفرت کی خلیج مگر اس قدر گہری ہو گئی کہ آسانی سے پاٹی نہ جا سکے گی۔ ایک ممتاز امریکی دانشور نے لکھا ہے انیسویں صدی میں بھی امریکہ کو یہی چیلنج درپیش تھا۔ فرق یہ ہے کہ تب ابراہم لنکن ایسا مدبر موجود تھا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار کے سوا جس کی کوئی دوسری ترجیح نہیں۔ کوئی مقصد حیات ہی نہیں۔ اقوام کے پیکر میں زخم جب اتنے گہرے ہو جائیں تو اندمال آسان نہیں ہوتا۔عجیب بات یہ ہے کہ المناک پیچیدگیوں کے باوجود پاکستان کے لئے نئے در کھلے ہیں۔ بھارت چین سے الجھ گیا ہے اور بیجنگ پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔مواقع سے اس نے فائدہ اٹھایا ہے۔ پہل کر گزرا ہے اور داخلی مسائل کی دلدل میں گھرے بھارت کو آسانی سے اب وہ ابھرنے کی اجازت نہیں دے گا۔دہلی کی بے چارگی سسک سسک کر کہتی ہے۔ قریب آئو دریچوں سے جھانکتی کرنوں کہ ہم تو پابہ رسن ہیں ابھر نہیں سکتے نفرت کا زہر گھولنے والے اسی کا شکار ہوا کرتے ہیں۔ افغانستان میں بھارت کا کردار محدود ہوا بلکہ محدود تر‘ جہاں اس نے تخریب کاری کے مراکز قائم کر رکھے تھے۔ اس لئے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت آ پڑی ہے ۔ایران سے پاکستان کے مراسم بہتر ہوئے ہیں اور روس سے بھی۔ مستقبل کے لئے چینی قیادت سے دیرپا منصوبہ بندی کی ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک اس کے مظاہر ہیں۔ کتنی ہی اقوام سے اپنے مراسم اس نے بہتر بنائے ہیں۔ سوویت یونین کو منہدم کرنے والے امریکہ کے خلاف ماسکو میں انتقام کی چنگاری زندہ ہے۔زخم خوردہ قوموں کا حافظہ ہمیشہ تازہ رہتا ہے تآنکہ وہ اپنا قرض چکا دیں۔ مستقبل کے بارے میں حتمی پیش گوئی ابھی مشکل ہے کہ یہ ایک الجھی ہوئی صورت حال ہے۔ ابھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ امریکی غلبے کا خاتمہ قریب ہے۔ ہاں !اگر روس اور چین ایک نئی عالمی کرنسی کے قیام پر متفق ہو گئے؟ ثبات ایک تغیر تو ہے زمانے میں