بہت تیز رفتاری سے سفر جاری ہے۔ حالات کے انجام سے بے خبری اتنی زیادہ ہے کہ منزل کے گرد دھواں ہے اور آتش فشانی کے دور از قیاس آثار بھی موجود ہیں۔ پھر بھی بے خبری کا نشہ اتنا گہرا ہے کہ گھوڑے گدھے انہیں یکساں نظر آتے ہیں۔ اندر کا خوف بسا اوقات ذات کے اظہار میں اترتا ہے تو دماغی توازن کو بھی جھول آتا ہے کوئی سمجھائے تو اسے آنکھیں دکھاتے ہیں۔ شریف لوگ جب مخمور بھری آنکھوں سے اپنے مخلص دوستوں کو گھورتے ہیں تو نیا تماشا شروع ہوتا ہے۔ پاکستان میں آپا دھاپی کے سیاسی انداز اتنے ہیں کہ کسی میں یہ جرأت نہیں کہ حالات کی سنگینی کو بھانپ کر اپنا رویہ بدل لے۔ پاکستان اور پاکستانیت کی بقا کے لیے کچھ بے آسرا لیکن دل کے روشن اخلاص والے لوگ اپنی بات سناتے ہیںاور احساس کو بیدار کرنے کی کوشش بھی کرتے اور زبان و قلم سے پاکستان پاکستان‘ دل و جان پاکستان کا ورد بلند کئے رکھتے ہیں۔ یہ حساس دل لوگ وہ ہیں جو پاکستان کو عطیہ الٰہی جانتے ہیں اور بارگاہ رسالت پناہﷺ کی حمایت خاص کو پاکستان کی بقاء کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ امت کے صالحین نے تحریک پاکستان میں جان و دل اور ہوش و خرد سے آزادی کے چراغاں کا سامان کیا تھا۔ یہ پاکستان اولیاء کا فیضان ہے۔ لیکن وہ لوگ حد درجہ گمراہ ہیں جو پاکستان کو اپنی حیوانی چراگاہ سمجھتے ہیں اور اس چراگاہ میں ہر قسم کے منہ زور حیوانوں کو چرنے کا موقع عطا کرتے ہیں اور اپنی بے بصیرت نفس پرست اولاد کو اس چراگاہ کا مستقل منتظم بنانا چاہتے ہیں۔ اسلام دشمن اور پاکستان دشمن یہودی گداگر دنیائے اسلام کو انسانی اذہان سے محو کرنا چاہتے ہیں علاقہ نسل اور مذہبی اختلاف کی بنیادوں پر منافقین کی جو خدمات حاصل کی جاتی ہیں وہ اہل نظر پر پورے طور پر عیاں ہے۔ لیبیا‘ شام‘ مصر عراق اور عرب ریاستوں میں انہوں نے بہت زیادہ زہر آلود اذہان تیار کر لیے ہیں۔ مقتدر حکمرانوں کو خوشنما اور خوش ذائقہ خوراک سے نواز کر ان کے دل اور زبانوں کو طلسماتی طور پر بے حس اور بے غیرت بنا دیا ہے وہ دین اور الحاد میں تفریق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں ان کی آنکھوں سے ایمانی امتیاز کرنے والا نور رخصت ہو چکا ہے۔ اسرائیل‘ امریکہ اور دنیا کی سب سے بڑی ریاست بھارت ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔امریکہ سہولت کارہے یہودیوں کا اور مشرکین عجم کا۔ ایران کو دھمکی دلواتے ہیں ۔ نیتن یاہو کی سفارش اور کاسہ لیسی کا انداز نمایاں ہے۔ کوئی بھی اسلامی ریاست ان کے نزدیک عالم میں ایک حرف غلط کی طرح ہے۔ ایران پر حملہ اور افغانستان پر نیم مردنی حالت میں جبری قبضہ کسی بھی ناخوشگوار اور منحوس خبر کا پیش خیمہ ہے۔ پاکستان کو نقشہ عالم سے مٹانے کا پرانا کافرانہ خیال اب اپنی تعبیری شکل کے قریب ترین ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بین الاقوامی بساط سیاست قریب اختتام ہے۔ کھیل کا نتیجہ کیا ہو گا ذہن کی تاریں لرزتی ہیں اور زبان گنگ ہوتی جاتی ہے کیونکہ اس ملک کے نااہل سیاستدان اب نہ سیاستدان رہے ہیں اور نہ ہی محب وطن رہے ہیں اپنے ذاتی مفاد کی ترجیحات نے ان کو بے ضمیری کی ایسی لوری دے ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی تاجر کی ڈگڈگی پر رقصاں رہتے ہیں۔ کتنی بری بات ہے کہ جب ایک نااہل وزیر اعظم نے اپنی قوم کو دہشت گرد بتانے کے لیے دھڑلے سے بیان دیا اور غیرت سے عاری مقتدر لوگوں نے تاویلات کا دروازہ کھول دیا اور ایک غلط الزام کو اپنے قائد کا بیانیہ بنا کر بے جا احترام اور بے جا ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پرانے اقتدار کے پرانے مشہورشریف النفس راجہ محمد ظفر الحق جیسے لوگوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے محتاط اور وقتی مستعمل سیاستدان ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ مسلم لیگ نہیں ہے یہ ایک کاروباری فرم کا نام ہے محض نون۔ دنیا ایک عرصے سے اس نون کو قبول کر چکی ہے۔ کبھی مجیب الرحمن غدار دین و ملت کا نام ان کی آفاقی گولی ہے۔ بار بار یہ دھمکیاں کہ اگر ہم جیل گئے تو آزادی و زندگی سے معمور پاکستان کا امن تہہ و بالا کر دیں اور کبھی مکارانہ زبان کے ساتھ جلسہ عام میں پاکستانیت کی توہین کرنا ان کا معمولی مشغلہ ہے۔ بہت سے قانون دان اپنی پیشہ ورانہ خدمات فروخت کرتے ہیں۔ اقتدار کے رسیا اور ظلم آشنا نااہل لیڈر زبان کو کروٹ دے کر پاکستانیت کو کوستے ہیں اور ایسے مبہم نعروں سے اپنی پارسائی کو بیان کرتے ہیں گویا یہاں ہر شخص بے وقوف ہے۔ اصغر خان کیس نے ایسے نام نہاد سیاستدانوں‘ لالچی خود رو دانشوروں اور روایتی بن منگے مصلحین کی حقیقت صالحیت کو طشت ازبام کر دیا ہے جن کا وطیرہ یہی رہا کہ ہر چلنے والا دولہا کا براتی بن جائے۔ وہ لوگ جو چالاک اور پھرتیلے تھے انہوں نے ہمیشہ ہی اپنی ناقص اور خود ساختہ فکر کو قومی ضرورت قرار دے کر منافقت اور خلاف حقیقت روایت کو جنم دے کر پاکستان کا فطری سیاسی ماحول دھواں آلود کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ اثرات اب تک پاکستان کے نظام تنفس کو ضعیف کر رہے ہیں۔ مذہب کے دعویدار سیاسی خدمت گاروں نے ہمیشہ ہی ایسے زور پرور سیاسی لوگوں کی پناہ لی ہے جن کو وہ برسرمنبر فاسق و فاجر اور دنیا دار کہا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی ذلت کے لیے اپنے حواریوں کے لیے اور اپنے مراعات کار کے علاوہ اپنی روحانی و معنوی ذریت کی پرورش کے لیے حلیف حکومت کے تمام وسائل بھی استعمال کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو اسلام کے نام پر جتھے بندی میں پروتے ہیں اور پھر ان کے اخلاقی نظام کو بھی مراعات‘ سہولیات سے مزین کرتے ہیں۔ حب الوطنی اور دین پرستی کا کوئی اشارہ بھی ان نوجوانوں کے کردار میں نظر نہیں آتا۔ وہ جذباتی نعرے لگاتے ہیں اور پھر کہیں نہ کہیں سے ان کے لیے جائز و ناجائز آسودگی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ مسلکی سیاست نہیں ہے اور پاکستان کا مسئلہ لبرل سیاست بھی نہیں ہے۔ پاکستان کا مسئلہ جو اہم ترین ہے وہ ریاست مدینہ سے فیض یافتہ وہ سیاسی و معاشرتی ماحول ہے جس میں دینی غیرت اور ملی حریت کے ساتھ ساتھ عوامی زندگی کی معاشرتی آسائش ہے امیر و غریب کے معیار زندگی کو قریب تر رکھنے کا وہ انداز ہے جس سے اہل صلاحیت اور زرخیز دماغوں کے مالک نوجوانوں کو عزت و غیرت کی زندگی میسر آئے۔ امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل پر اس داخلی کوشش کو ناکام کرنے کیلئے پاکستان کے اندرونی فکری دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتے رہیں گے جس کوشش سے ہر ملک فلاحی ریاست کے راستے پر گامزن ہو گا۔ پاکستان کا مسئلہ فی الحال تو امن و امان ہے۔ فوج نے ایک بڑا کردار ادا کیا ہے مسلح اور انسانیت دشمن دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے۔ لیکن جہاں پر محمود اچکزئی اور منظور پشتین جیسے لوگ عامۃ الناس کو ان کی قومیت کے حوالے سے محرومیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اکسائیں گے اور فکری تصادم پر آمادہ کریں گے تو اس خاموش فکری دہشت گردی کا راستہ کون روکے گا اور جہاں پر حکومت بھارتی کارندوں کی خدمت کا بہانہ بنا کر ملکی کارخانوں میں جاسوسوں کو رسائی دے‘ نہ صرف رسائی بلکہ مراعات دے اور کلبھوشن جیسے جاسوس دہشت گرد کی ایک حرفی مذمت بھی نہ کرے تو امن و امان کیسے قائم ہو گا۔ حکومت کے سربراہ وزیر اعظم اور اس کے خاندان کے افراد بھارتی جاسوسوں کو اپنے ذاتی کارخانوں میں پناہ دیں اور اسے حکام و قوم سے چھپا کر رکھیں اور کوئی سوال اٹھائے تو اسے کنارے رکھ دیں تو ایسے حالات میں ملکی سلامتی کے راستوں کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ مودی تو ایک بھارتی حکمران ہے۔ ہر بھارتی پردھان منتری اور اس کے پیچھے دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان بھارتی حکمرانوں اور ان کی نوکر شاہی کی فوج ہاتھ باندھے پاکستان اور مسلمانوں کو گالیاں دے اور دھمکیاں دے لیکن ہمارے کسی حکمران کے کان پر جوں نہ رینگے۔ شاید کوئی بین الاقوامی دبائو کی مجبوری ہو گی۔ لیکن ایسے مجبور مزدور حکمرانوں کو حکمرانی کا بالکل بھی حق باقی نہیں رہتا۔ جب وہ زبان کسی بھی دشمن ملت و دین کے لیے استعمال نہ کر سکیں ان کے سر تو امریکہ اسرائیل اور بھارت کی ہر خواہش کے سامنے فرویانہ جھکتے ہیں لیکن مودی ٹرمپ اور نیتن یاہو کے لیے کوئی بھی حرف مذمت ادا کرتے ہوئے ان کا سانس خشک جاتا ہے۔ ابھی چند روز پہلے بھارتی سربراہ افواج نے کشمیریوں پر ظلم کو جائز قرار دیا اور دھمکی دی کہ کشمیر کبھی بھی آزاد نہیں ہو گا۔ مگر مجال ہے کسی بھی سیاستدان نے غیرت ملی کا مظاہرہ کیا ہو یا کشمیر کمیٹی مراعات یافتہ سیاستدانوں کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ ایک نہایت ذمہ دار شخص نے نہایت غیر ذمہ دارانہ بیان دیا کہ بھارت میں دہشت گردی پاکستان کے ایماء پر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی پوری ذمہ داری سے ہوتی ہے۔ شور مچا‘ سلامتی کمیٹی نے اپنی قانونی کوشش کی۔ لیکن وزیر اعظم اور ان کی کابینہ بے حس رہی اور اب نااہل وزیر اعظم نے پوری سینہ زوری کے ساتھ بیان دیا ہے کہ ہم نے جو کہا تھا ٹھیک کہا تھا اور اب اس سیریز کو جاری رکھوں گا اور عوام کو بتایا جائے گا کہ دہشت گردی کی بنیاد کس نے رکھی اور پھر ان کا ارادہ یہی نہیں ہے بلکہ ان کا عزم بالجزم ہے کہ وہ اب بہت سی ایسی باتیں افشا کریں گے جو قوم نہیں جانتی اور وزیر اعظم پاکستان بار بار یہ ارشاد فرما چکے ہیں کہ مسٹر نواز شریف ان کے قائد ہیں۔ وہ ہر موقع پر نواز شریف کی نہ صرف وکالت کرتے ہیں بلکہ انہیں حکومت کے ہر راز سے آگاہ رکھتے ہیں۔ ان سے ہدایات حاصل کرتے ہیں اور ان کی تعظیم بجا لاتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان ایسے شخص کے سہولت کار ہیں جو پاکستان کو دہشت گرد شمار کروانے کے لیے ایسے بیان دیتے ہیں جس سے ریاست پاکستان کی نہ صرف بدنامی ہوتی ہے بلکہ پاکستان بین الاقوامی برادری میں ایک ملزم قرار پاتا ہے۔ پاک فوج کی تمام تر جانی قربانیاں اور عوام الناس کی مالی و جانی قربانیاں محض ایک کار غلط شمار ہوتی ہیں۔ وہ لوگ جن کی معصوم جانیں دہشت گردی کی کارروائیوں کی زد میں آئیں۔ ان کے خاندان بے آسرا ہوئے۔ ان کی روحیں ایسے لوگوں پر لعنت بھیجتی ہیں جو دہشت گرد بھارت کی بالواسطہ مدد کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگوں کی ڈھٹائی ہی ہے کہ وہ مودی کی محبت کو اپنے دلوں کا سرمایہ بنائے ہوئے ہیں۔ خدائی عذاب مسلط ہو گا ان فضول لوگوں پر جو نیتن یاہو کی ہرزہ سرائی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی مسلم دشمن یاوہ گوئی پر سیاسی مصلحت کا شکار ہونے والے ظالم ہیں اور ظلم کی پرورش میں مصروف ہیں۔ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے۔